کراچی : رمضان کی آمد سے قبل ہی منافع خوروں کی چاندی ہو گئی،منافع خوروں نے اشیا کی قیمتوں میں من مانا اضافہ کرکے عوام کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔ملک کے مختلف شہروں میں عوام کو ریلیف دینے کے لئے سستے اور رمضان بازاروں کا انعقاد کیا گیاہے لیکن ان بازاروں میں بھی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکے کا سامان موجود ہے۔ رمضان کی آمد سے قبل اشیاکی قمیتوں میں دس سے پندرہ روپے اضافہ کر دیا گیا اور اب جب رمضان میں ایک روز باقی رہ گیاہے قمیتوں کو واپس اسی حالت میں لاکر قیمتوں میں کمی کے نام پر عوام کو لوٹا جا رہاہے۔چینی کی قمیت جو پندرہ روز قبل مارکیٹ میں اڑسٹھ روپے فی کلو تھی پانچ روپے بڑھائے جانے کے بعد تہتر روپے میں فروخت ہوتی رہی اور اب سستے اور رمضان بازاروں میں وہی پانچ روپے کم کرنے کے بعد عوام کو سستے داموں چینی فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی جا رہی ہے۔ اسی طرح پھل اور سبزیاں جو کچھ دنوں پہلے تک چالیس سے پچاس روپے فی کلو میں فروخت ہو رہے تھے آج ان کی قیمت اسی سے پچاسی روپے فی کلو کر دی گئی ہے۔ کیلا کراچی کی مارکیٹوں میں چالیس روپے درجن تھا لیکن اب اس کی قیمت ساٹھ روپے درجن ہے۔لاہور میں لگنے والے رمضان بازاروں اور عام مارکیٹوں میں نرخوں میں بہت فرق سامنے آیا ہے۔پیاز جو عام مارکیٹ میں سولہ سے بائیس روپے کلو فروخت ہو رہی ہے رمضان بازار میں اٹھارہ سے چوبیس میں دستیاب ہے۔آلو عام مارکیٹ میں اٹھارہ سے بیس روپے جبکہ رمضان بازار میں چوبیس روپے فی کلو فروخت ہو رہاہے۔ اسی طرح رمضان میں زیادہ استعمال ہونے والی دیگر اشیاجیسے بیسن ،چنے ،کجھور،شربت ،وغیرہ کی قیمتوں میں بھی کئی گنا اضافہ ہو چکاہے۔بلدیاتی نظام میں نرخوں کو کنٹرول کرنا شہری حکومت کی ذمہ داری تھی لیکن اب سندھ میں بھی دیگر صوبوں کی طرح مجسٹریٹی نظام نافذ کر دیا گیاہے۔جس کے بعدشہروں میں اب لگنے والے بازاروں میں قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی ذمہ داری ڈپٹی کمشنرز کے سپرد کر دی گئی ہے۔اور انہیں بازاروں میں نرخوں کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ ذخیرہ اندوزی سے روکنا اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کر ناہے۔ شہریوں کی سہولت کے لئے لگنے والے ان اتوار اور سستے بازاروں کے متعلق شہریوں کا کہنا ہے کہ یوں بھی جمہوری حکومت نیعوام کا بھرکس نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی پھر رمضان ایک ایسا مہینہ ہے جب عوام کو ایک بار پھر حکومت سے امید ہوتی ہے کہ شائید اس بار کی فریاد سنی جائے گی۔لیکن ہر سال کی طرح اس سال بھی وہی ڈھاک کے تین پات۔نہ تو نرخ کم کئے گئے اور نہ ہی عوام کو ریلیف ملا۔دنیا بھر میں قومی و مذہبی تہواروں کے موقع پر سیل اور سستے داموں اشیا کی فروخت کا اہتمام کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں صورتحال ہمیشہ سے برعکس ہی رہی ہے۔ تہواروں کے موقع پر سیل کے نام پر نرخ مذید بڑھا کر اشیا کو لوگوں کی پہنچ سے دور کر دیا جاتا ہے۔اور اب تو یہ حال ہے کہ سفید پوش طبقہ بھی اپنابھرم رکھنے میں ناکام ہے۔ابھی رمضان شروع نہیں ہوا ہے تو ذخیرہ اندوزوں نے نرخوں میں اضافے کے لئے ہتھکنڈے استعمال کرکے عوام کا جینا دوبھر کر دیاہے۔ماہ رمضان میں مہگائی کا گراف کہاں جائے گا اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔