ایک مثل مشہور ہے کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے اور یہ بھی سچ ہے کہ جھوٹ دیر تک قائم نہیں رہتا کیونکہ زیادہ دیر تک قائم رہنے کی صورت میں اس جھوٹ سے پردہ اُٹھ جاتا ہے اور اصل حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ ایسی صورتحال میں جھوٹے کو نہ صرف شرمندگی اُٹھانا پڑتی ہے بلکہ وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہتا۔ خبر ہے کہ طالبان نے افغانستان میں امریکی چینوک ہیلی کاپٹر مار گرایا ہے جس کے نتیجے میں اڑتیس افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ اس چینوک ہیلی کاپٹر کی تباہی کے اس واقعہ میں امریکی سیل ٹیم چھ کے کمانڈو یونٹ کا ایک پورا سکواڈرن بھی ہلاک ہو گیا ہے جس نے اس سال مئی میں اُسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کی کارروائی میں حصہ لیا تھا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کی ابھی تک نہ کوئی ویڈیو سامنے آئی اور نہ ہی تصاویر موجود ہیں البتہ اس ہلاکت کے جو زندہ ثبوت دنیا میں موجود تھے وہ بھی ہمیشہ کے لئے ختم ہو گئے ہیں۔ایک ہی ہیلی کاپٹر میں اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کے ذمہ دار گواہوں کی اکٹھے موجودگی نے جہاں سب کو حیران کر دیا ہے وہیں اس واقعے کے بعد بہت سی اُنگلیاں امریکا کی طرف بھی اُٹھ رہی ہیں۔ ذرائع ابلاغ کی کئی رپورٹوں کے مطابق نہایت منصوبہ بندی سے ایبٹ آباد آپریشن میں حصہ لینے والے تمام کمانڈوز کو ایک ہی ہیلی کاپٹر میں سوار کرکے مار ڈالا گیا تاکہ مستقبل میں اس جعلی ڈرامے کے دنیا میں موجود اِن زندہ گواہوں کے ذریعے کوئی راز فاش نہ ہو سکے۔ دنیا جانتی ہے کہ ایبٹ آباد واقعہ جھوٹ کا ایک ایسا پلندہ تھا جس کا مقصد ایک طرف افغانستان سے اتحادی افواج کی باعزت واپسی جبکہ دوسری طرف پاکستان پر حملے کا جواز اور اس کے ایٹمی اثاثوں کا خاتمہ کرنا تھا۔ اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کے گواہوں کی موت کے بعد جو اُنگلیاںامریکا کی طرف اُٹھ رہی ہیں وہ اس سے انکاری ہے جبکہ اس واقعے کا مورد الزام طالبان کو ٹھہرا رہا ہے اور ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کر رہا ہے کہ بین الاقوامی افواج نے ہیلی کاپٹر مار گرانے والے طالبان کو بھی ہلاک کر دیا ہے۔ طالبان نے ہیلی کاپٹر مار گرانے کی ذمہ داری تو قبول کرلی ہے البتہ اپنے جنگجوئوں کی ہلاکت کی تردید کر رہے ہیں۔ اگر امریکا کی بات کو سچ مان لیا جائے کہ ہیلی کاپٹر اُنہوں نے نہیں بلکہ طالبان نے گرایا تو یہ بھی ممکن ہے کہ سی آئی اے نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے خود ہی معلومات طالبان تک پہنچا دی ہوں کہ اس روٹ سے میرینز کا ہیلی کاپٹر گزرے گا ۔ خفیہ ایجنسیاں کبھی کوئی نشان نہیں چھوڑتیں اور ایسے کاموں میں امریکا سے کچھ بعید بھی نہیں ہے۔ اُسامہ کی ڈرامائی ہلاکت نے جہاں پوری دنیا کو شکوک میں مبتلا کر دیا تھا اب یہ شکوک مزید پختہ ہو گئے ہیں۔ پہلے اُسامہ بن لادن کو سمندر برد کرنے کا ڈرامہ رچایا گیا جس نے کئی سوالوں کو جنم دیا۔ اس کے بعد اُسامہ کی ہلاکت پر شبہات اور افواہوں کو ختم کرنے کے لئے جو ویڈیو جاری کی گئی وہ بھی متنازعہ رہی۔ اس ویڈیو میں جہاں آواز کو ختم کیا گیا وہیں ایک بوڑھے شخص کو اُسامہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ایک اہم سوال یہ بھی ابھرتا ہے کہ ایک ویڈیو میں اُسامہ بن لادن کو اکتوبر سن دو ہزار دس میں امریکا کے خلاف پیغام جاری کرتے دکھایا گیا ہے۔ اس وقت بن لادن کو یہ پیغام ریکارڈ کرنے کی ضرورت کیوں پڑی اور یہ کہ انہوں نے یہ ویڈیو ریلیز کیوں نہیں کی؟ اس کے علاوہ ایک اور سوال جو پوری دنیا کو پریشان کر رہا ہے اُسامہ نے سن دو ہزار سات کے بعد کوئی ویڈیو پیغام جاری نہیں کیا۔ جب ان کے سارے پیغام آڈیو میں ہوتے تھے تو پھر سن دو ہزار دس میں اُنہیں ویڈیو ریکارڈنگ کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ اُسامہ کی ہلاکت کے ثبوت اور افواہوں کو ختم کرنے کیلئے جاری کی گئی ویڈیوز نے جن سوالات کو جنم دیا ان کے جوابات امریکی حکام کے پاس بھی نہیں ہیں۔ ان تمام سوالات کے جوابات ملنے کیلئے اب آخری چارہ یہی کمانڈوز تھے جنہوں نے ایبٹ آباد آپریشن کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور توقع کی جا رہی تھی کہ ان میں سے کوئی بھی مستقبل میں یہ راز افشاء کرنے کی جسارت کر سکتا ہے۔ اُسامہ بن لادن کی ڈرامائی موت کے جو گواہ دنیا میں موجود تھے پہلے اُن سے یہ اعتراف کروایا گیا کہ واقعی اُنہوں نے یہ کارنامہ سرانجام دیا ہے پھر اس ثبوت کو ہمیشہ کے لئے مٹانے کی غرض سے تمام گواہوں کو ایک ہیلی کاپٹر میں بٹھا کر اُڑا دیا گیا اور اس کا ذمہ دار طالبان کو ٹھہرا دیا۔ اب نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ نہ ہی ثبوت موجود ہوگا نہ آگے چل کر پول کھلے گا کہ یہ سارا ڈرامہ تھا اور یاد رکھیئے کہ ثبوت ہمیشہ جھوٹ کے ہی مٹائے جاتے ہیں۔ دنیا حیران ہے کہ امریکی فوج کے خصوصی دستوں کو اس طرح کا نقصان پہلے کبھی کیوں نہیں ہوا اور تمام گواہوں کو ایک ہی جہاز میں سوار کیوں کیا گیا۔ اتنی بڑی کارروائی کی منصوبہ بندی کے پیچھے طالبان کا ہاتھ سمجھنا بیوقوفی سے زیادہ کچھ نہیں البتہ یہ ممکن ہے کہ اس منصوبہ بندی کا سکرپٹ لکھنے والوں نے اپنے خفیہ ذریعوں سے طالبان تک یہ اطلاع پہنچا دی ہو کہ فلاں راستے سے امریکی چینوک ہیلی کاپٹر گزرے گا جس میں وہ کمانڈوز سوار ہیں۔ جنہوں نے اُسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یوں امریکا دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو جائے گا کہ اُس کے کمانڈوز خصوصی آپریشن میں مصروف تھے کہ طالبان کے غضب کا نشانہ بن گئے۔ اس طرح اُسامہ کی ڈرامائی ہلاکت کے بعد گواہوں کے خاتمے سے نہ صرف امریکا پر انگلیاں اُٹھنا بند ہو جائیں گی بلکہ ہلاک شدگان کے اہل خانہ کے ہاتھوں بھی ہزیمت اُٹھانا نہیں پڑے گی۔ جب دنیا میں گواہ اور ثبوت ہی موجود نہیں ہوں گے تو پھر اُسامہ کی ڈرامائی موت بھی پس پشت چلی جائے گی اور دنیا کو اُسامہ کی موت کے حوالے سے صرف وہی حقائق ماننے پڑیں گے جو امریکی وزیر دفاع کہیں گے۔ ایک ہی ہیلی کاپٹر میں موجود ایبٹ آباد آپریشن کے تمام گواہوں کی ہلاکت کے بعد یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ ہیلی کاپٹر گرانے کی منصوبہ بندی خالصتاً طالبان کی تھی یا اس تباہی کی وجوہات کچھ اور ہیں۔ تحریر: نجیم شاہ