یہ 1956ء کی بات جب حکومت پاکستان نے اعلیٰ ترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی شخصیات کو سول ایوارڈز دینے کا فیصلہ کیا، چنانچہ پہلی بار19مارچ 1957ء سے پاکستان کے سب سے بڑے سول اعزاز نشان پاکستان کا اجراء ہوا،یوں ہر سال یوم آزادی کے موقع پران ایوارڈز کیلئے نامزدگیوں کا باقاعدہ اعلان کیا جانے لگااور نامزد افراد کو یہ اعزازات اگلے سال 23مارچ کو دئیے جانے لگے ،قارئین محترم! پاکستان کے یہ اعلیٰ ترین سول ایوارڈز پانچ اقسام کے ہیں، ایوارڈ کی ہر قسم کو چار درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے ، نشان پاکستان کے بھی چار درجے ہیں،یعنی نشان پاکستان، ہلا ل پاکستان،ستارہ پاکستان اورتمغہ پاکستان، اسی طرح نشان شجاعت، نشان امتیاز، نشان قائداعظم اور نشان خدمت کے بھی چار چار درجے ہیں،جو بالترتیب نشان، ہلال، ستارہ اور تمغہ کہلاتے ہیں، نشان پاکستان پاکستان کے سب سے اعلیٰ ترین سول اعزاز ہونے کی بنا پر خاصی تحقیق اور جانچ پڑتال کے بعد زندگی کے مختلف شعبوں اور ملک و قوم کیلئے اعلیٰ ترین خدمات انجام دینے پر دیا جاتا ہے،آئین کی شق 259(2) کے تحت ہر ایسے پاکستانی شہری کو جس نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قومی خدمت سر انجام دی ہو، فنون لطیفہ، لٹریچر، سائنس، کھیل اور نرسنگ کے شعبے میں کارہائے نمایاں انجام دیئے ہوں، کو اِن کو اعزازات کیلئے نامزد کیا جاتا ہے،جنھیں مختلف سطحوں پر قائم کمیٹیاں سفارشات اور کارکردگی کا جائزہ لینے کے بعد فائنل کرتی ہیں ، پھر سمری کی شکل میں کابینہ ڈویڑن اِن کو منظوری کیلئے مجاز اتھارٹی وزیر اعظم اور صدر کو بھیجتی ہے، اہم اور دلچسپ بات یہ ہے کہ آئین پاکستان کے تحت اِن قومی اعزازات کو دینے کیلئے اصول و قاعدے بھی وضع گئے ہیں اور ایوارڈ دینے کیلئے آئینی تقاضے، اُس کے دائرہ کار ( Scope) سمیت طریقہ کار بھی طے کردیئے گئے ہیں۔ ریاستی سطح پر دیئے جانے والے اِن اعزازات کا تقاضہ یہ ہے کہ اِن کی حرمت و تقدیس اور عزت و تکریم کے ساتھ تعظیم کا بھی خیال رکھا جائے اور انہیں سیاسی وابستگیوں اور اقرباء پروری سے بچایا جائے،شاید اسی وجہ سے ماضی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میںجب اُس وقت کے وزیر بہبود آبادی جے سالک کو اقلیتوں کی خدمات کے حوالے سے ہلال امتیاز دینے کی سفارش کی گئی تو محترمہ نے اُس سمری کو یہ کہہ کر رد کردیا تھا کہ ”پالیسی کے تحت کسی بھی وزیر کو کسی تمغے سے نہیں نوازا جاسکتا۔”دراصل محترمہ بے نظیر بھٹو نے آئین و قانون اور اِن اعزازات کی حرمت و تقدیس کی روشنی میں یہ اصول طے کردیئے تھے کہ سرکاری ملازم اپنے فرائض منصبی کے حوالے سے کسی اعزاز کیلئے زیر تجویز نہیں آسکتے اور نہ ہی سیاسی عہدوں پر فائز شخصیات کو اِس بنیاد پر اِن اعزازات کا حقدار قرار دیا جاسکتا، ماضی کی حکومتوں نے سیاسی وابستگیوں اور تمام تر اقرباء پروری کے باوجود بڑی حد تک اِن اصول و قوائد کا خیال رکھا،مگر افسوس کہ موجودہ حکومت نے سیاسی وابستگیوں، اقرباء پروری اور قومی وسائل کی بندر بانٹ کے تحت اِس سال قومی اعزازات کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا، یوم آزادی کے موقع پر صدر مملکت نے جن 185شخصیات کیلئے قومی اعزازات کا اعلان کیا ،اُن میں سے بیشتر کا تعلق نہ صرف خود اُن کی اپنی جماعت سے ہے بلکہ اُن میں سے کئی ایک اہم حکومتی عہدوں پربھی فائز ہیں،اِس لحاظ سے دیکھا جائے تو حکومت نے قومی اعزازات کو ” اندھے کی ریوڑیوں” کی طرح اپنوں میں بانٹ کر اِن اعزازات کیلئے طے شدہ اصول و قواعد اور میرٹ کی دھجیاںاْڑا دی ہیں ۔ کیونکہ حکومت کی جانب سے نشان امتیاز سے نوازے جانے والوں میں فاروق نائیک چیئرمین سینٹ ہیں، سینٹر منتخب ہونے سے قبل وہ جناب آصف علی زرداری کے وکیل کے طور پر فرائض انجام دیتے رہے ہیں،فہمیدہ مرزااسپیکر قومی اسمبلی ہیں اور پیپلزپارٹی سے اُن کی اوراُن کے شوہر کی وابستگی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیںہے، رحمٰن ملک وزیرداخلہ ہیں ،ملک وقوم کیلئے اُن کی کیا خدمات ہیں ،سب اچھی طرح جانتے ہیں،اسی طرح سلمان فاروقی صدر مملکت کے پرنسپل سیکرٹری اور ایوان ِ صدر ہی میں براجمان ہیں،ہلال ِ امتیاز سے نوازے جانے والوں میں صدر زرداری کے معتمد خاص فرحت اللہ بابر، امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی ،بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی انچارج فرزانہ راجہ جنہیں وفاقی وزیر کا درجہ بھی حاصل ہے اور صدر زرداری کے ایک اور رفیق ِکاربیت المال کے چیئرمین زمرد خان بھی شامل ہیں،مال ِ مفت ، دل بے رحم کی اِس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہوگی ،ستارہ ء امتیاز اپنے ماتھے پر سجانے والوں میں پاکستان براڈ کاسٹنگ کا رپوریشن کے ڈائریکٹر جنرل مرتضیٰ سولنگی، صدر مملکت کی بہت قریبی شخصیت اور کابینہ ڈویڑن کی سیکرٹری نرگس سیٹھی(جو خود اِن اعزازات کو پروسیس کرنے کی ذمہ دار ہیں) صدرکے پرنسپل سیکرٹری سلمان فاروقی کی بھتیجی شرمیلا فاروقی، متحدہ کی رکن قومی اسمبلی خوش بخت شجاعت ، مبشر لقمان (جو مشرف دور ِ حکومت میں پنجاب کے نگراں وزیر رہ چکے ہیں اور دیگر اینکر پرسنز کے مقابلے میں حکومت کی طرف زیادہ جھکاؤ رکھتے ہیں) اور قاسم ضیاء بھی شامل ہیں،جو پیپلزپارٹی پنجاپ کے صدر رہ چکے ہیں اور آجکل ہاکی فیڈریشن کے بھی صدر ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ اعزازات کی اِس بندر بانٹ میں خود صدر مملکت نے اپنے لیے کوئی اعزاز نہیں رکھا ،نہ ہی انہوں نے وزیراعظم کیلئے کسی تمغے کا اعلان کیا،کیا ہی اچھا ہوتا کہ ایک ایوارڈ بلاول بھٹو زرداری کیلئے بھی رکھ دیا جاتا،ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب متحدہ قومی موومنٹ کی خوش بخت شجاعت کیلئے ستارہ ء امتیاز کا اعلان کیا تھا تو حکومت کی دوسری اتحادی جماعتوں کے عہدیداروں کیلئے بھی کسی نہ کسی ایوارڈ کا اعلان کردیا جاتا ،کم ازکم غلام احمد بلور کو ریلوے کا بیڑا غرق کرنے پر تو ضرور کسی نہ کسی اعزاز کا مستحق قرار دیا جانا چاہیے تھا،اسی طرح مفاہمتی سیاست کے بادشاہ اور بیک وقت حلیف اور حریف کا ڈبل کردار ادا کرنے کے ماہر مولانا فضل الرحمٰن کو بھی اِس کیٹگری میں شامل کرلیا جاتا تو کیا بات تھی کہ ہمیشہ جناب ِ شیخ کا قدم ، اِدھربھی ہوتا ہے اور اُدھر بھی،ارے اگر ایوارڈ ہی دینا تھا تو وزیر اعلیٰ بلوچستان سے زیادہ اور کون اعزاز کا مستحق ہو سکتا تھا کہ جن کی گفتگو سمجھنے کیلئے مترجم کی ضرورت پڑتی ہے اور جن کے بارے میں لطیفہ مشہور ہے کہ انہوں نے ظہر کی اذان کے وقت روزہ افطار کر لیا، سیکرٹری نے ڈرتے ڈرتے بتایا تو شان بے نیازی سے بولے”اذان اذان ہوتی ہے، چاہے ظہر کی ہو یا مغرب کی۔”مگر صد افسوس کہ صدر مملکت کے نے اِن اہم افراد کو نظر انداز کرکے قومی اعزازات جانچنے کے طریقہ کار پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے،شاید مسلم لیگ ن اور دیگر سیاسی جماعتیں اسی وجہ سے احتجاج کررہی ہیں،خیر یہ تو چندجملہ معترضہ تھے ،اصل معاملہ یہ ہے کہ حکومت نے زیادہ تر قومی اعزازات اپنے ذاتی مداحوں، پارٹی کارکنوں، سٹاف ممبروں اور خوشامدیوں میں بانٹ کر ان قومی اعزازات کے مرتبے و مقام کی توہین کی ہے ، یہی وجہ ہے کہ قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان اِس اعلان کو قوم کے ساتھ مذاق سے تشبہہ دے رہے ہیں، جبکہ دوسری جانب ممتاز آئینی و قانونی ماہرین قومی اعزازات کی جیالوں میں تقسیم پر ناراض ہیں اور رحمن ملک کو نشان امتیاز دینے کے فیصلے کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ صدارتی معافی نامے کے باوجود جرم برقرار رہتا ہے اور کسی سزا یافتہ شخص کو قومی ایوارڈ نہیں دیا جا سکتا، کیا ایسے اشخاص جو کہ ذمہ دار سرکاری اور حکومتی عہدوں پر فائض ہیں اورجن کی کارکردگی قوم کیلئے غیر تسلی بخش ہے مگر اِس کے باوجود یہ لوگ اپنی ذمہ داریوں اور فرائض منصبی سے زیادہ قومی خزانے سے مراعات اور سہولیات وصول کررہے ہیں،کواِن قومی اعزازات کا مستحق قرار دیا جاسکتاہے۔؟حیرت ناک اَمر یہ ہے کہ وہ لوگ جو کہ اپنی ذمہ داریوں کے اہل بھی ثابت نہیں ہورہے آخر انہوں نے ایسی کونسی قومی و ملی خدمت اور کارنامہ سرانجام دیا ہے جس کی بنیاد انہیں اِن اہم اعزازات کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔؟ قومی حلقے کی جانب سے اٹھائے گئے یہ سوالات اپنی جگہ توجہ طلب ہیں ،ویسے بھی سول اعزازات کی فہرست نے شہریوں کو حیران وششدر کر دیاہے کہ ایوارڈز سے نوازے جانے والوں میں زیادہ تر پیپلز پارٹی کے اہم ارکان، صدر کے قریبی ساتھی ا ور بیوروکریٹس شامل ہیں،ملک بھر میں اِن اعزازات کی تقسیم پر شدید تنقید ہورہی ہے ،کیا ہی اچھا ہوتا کہ جن لوگوں کو قومی اعزازات دینے کیلئے منتخب کیا گیا ہے ، میڈیا کو اُن کی خدمات کی وہ فہرست بھی جاری کردی جاتی جن کے باعث انہیں اعزازات کا مستحق سمجھا گیا ،خاص طور پر فاروق نائیک،فہمیدہ مرزا، رحمن ملک، سلمان فاروقی،فرحت اللہ بابر،مرتضیٰ سولنگی، صوبہ سندھ کی مشیر شرمیلا فاروقی، موجودہ کیبنٹ سیکرٹری اور وزیر اعظم کی سابق پرنسپل سیکرٹری نرگس سیٹھی،امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی،بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی سربراہ فرزانہ راجہ،پاکستان بیت المال کے چیئرمین زمردخان اور متحدہ کی رکن اسمبلی خوش بخت شجاعت کی غیر معمولی خدمات جاننے کیلئے قوم تو ویسے بھی بیتاب ہے، پہلی بارقومی تاریخ میں اتنی بڑی تعداد میں ایک ہی سیاسی جماعت کے افراد کو اس طرح اعلیٰ ترین قومی اعزازات کیلئے منتخب کرنایقینی طور پر اقربا پروری اور بندر بانٹ کے زمرے میں آتا ہے،اگر غیر جانبدار انہ جائزہ لیا جائے توان صاحبان کا ایسا کوئی خاص کارنامہ جس کی بنیاد پر انہیں اعلیٰ ترین اعزازات کیلئے منتخب کیا جاسکتا ہے ،ثابت کرنا بہت مشکل ہے،جبکہ یہ اعزازات اُن افراد کو دئیے جاتے ہیں جنہوں نے ایسی کوئی قومی خدمت سر انجام دی ہو جس کی نظیر ملنا مشکل ہویا ملک و قوم کی بہتری کیلئے ایسا کارنامہ انجام دیا ہو جس سے قوم کا سر فخر سے بلند ہو جائے،اَمر واقعہ یہ ہے کہ اِس سال حکومت نے سول اعزازات کی جو بے توقیری کی ہے،ماضی میں اِس کی کوئی مثال نہیں ملتی،جس طرح ریوڑیوںکی مانند یہ اعزازات اپنوں میں بانٹے گئے ہیں اور ایسے ایسے لوگوں کو نوازاگیاہے جن کی قومی و ملی خدمات خودبین سے تلاش کرنے پر بھی نظرنہیں آتیں،سچ کہتے ہیں صفدر ہمدانی صاحب کہ دیکھ کر فہرست اعزازات کی آیا خیال کوئی تو چمچہ ہے اسمیں اور کوئی کفگیر ہےقائد اعظم کی روح بھی بالیقیں بے چین ہےہائے کیا اقبال تیرے خواب کی تعبیر ہے تحریر : محمد احمد ترازی