بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کے سرکاری کمیشن نے وادی کے 38 مقامات پربینام سینکڑوں اجتماعی قبروں کی موجودگی کی تصدیق کی ہے جن میں دو ہزار سے زائد گولیوں سے چھلنی لاشیں دفن ہیں۔غیر جانبدار انسانی حقوق کی تنظیمیں طویل عرصے سے بھارتی فوج اور پولیس اہلکاروں پر کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور عام شہریوں کو ہلاک کرنے کے الزامات لگاتی آئی ہیں۔ لیکن سکیورٹی حکام ان کی تردید اور یہ دعوی کرتے آئے ہیں کہ جھڑپوں میں مارے جانے والے لوگ علیحدگی پسند مسلمان جنگجو ہیں۔جموں و کشمیر ریاستی کمیشن برائے حقوق انسانی کی تین سال کی تحقیقات پر مبنی 17 صفحات کی رپورٹ وادی میں 20 سال سے جاری تصادم کے دوران عام شہریوں کو ہلاک کر کے بے نام قبروں میں دفنانے کا سرکاری سطح پر پہلا اعتراف ہے۔ اس بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ شمالی کشمیر کے 38 مقامات پر موجود بے نام قبروں میں مقامی افراد کی لاشیں دفن ہیں۔رپورٹ کے مطابق 2,156 نامعلوم افراد کی لاشیں انفرادی اور اجتماعی قبروں سے ملی ہیں جبکہ تصدیق کی گئی ہے کہ ان قبروں سے ملنے والی 574 دیگر لاشیں مقامی باشندوں کی ہیں۔بھارت کو اس کے زیر انتظام کشمیر میں 1989 سے مسلمان علیحدگی پسند تحریک کا سامنا ہے اور وادی میں باغی تنظیموں کی کارروائیوں اور ان کے خلاف بھارتی سکیورٹی فورسز کے آپریشن میں 68 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں کا الزام ہے کہ اب تک لگ بھگ 8,000 افراد لاپتا ہو چکے ہیں جبکہ ان کا الزام ہے کہ شہری ہلاکتوں کو چھپانے کے لیے بھارتی فورسز فرضی جھڑپوں کا ڈھونگ بھی رچاتی ہیں۔ مزید برآں انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ گرفتاری کے بعد مشتبہ عسکریت پسندوں کے بارے میں کسی بھی طرح کی معلومات منظر عام پر نہیں آتی ہیں۔بھارتی کشمیر کے حکام ان الزامات کے جواب میں یہ موقف اختیار کرتے آئے ہیں کہ لاپتا ہونے والوں کی اکثریت ممکنہ طور پر ایسے نوجوان کشمیریوں کی ہے جو اسلحہ اور عسکری تربیت حاصل کرنے کے لیے سرحد عبور کر کے پاکستان چلے گئے ہیں۔2008 میں کشمیر میں سرگرم عمل انسانی حقوق کی ایک تنظیم، انٹرنیشنل پیپلز ٹرائی بیونل آن ہیومن رائٹس اینڈ جسٹس، نے بارامولا، بانڈی پور اور ہنڈوارا کے 55 دیہاتوں میں بے نام قبروں کا انکشاف کیا تھا جس کے بعد محققین اور دیگر تنظیموں نے بھی ہزاروں کی تعداد میں ایسی انفرادی اور اجتماعی قبروں کا پتہ لگایا تھا۔بھارتی حکام نے حقائق جاننے کے لیے ایک خصوصی کمیشن تشکیل دیا جبکہ الگ سے ان الزامات کی پولیس تحقیقات بھی شروع کی گئی جن کی تفصیلات ابھی جاری نہیں کی گئی ہیں۔سرکاری انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ میں شناخت کی گئی لاشوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس تمام معاملے کی مفصل، غیر جانبدار تحقیقات کرائی جائیں۔