گزشتہ دنوں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی جانب سے شہر کراچی میں تسلسل سے جاری بدترین قتل وغارت گری کے خلاف ملک بھر میں منائے جانے والے پُرامن یوم سُوک اور مذمت نے یہ ثابت کردیاہے کہ کراچی میں قتل وغارت گری کے خلاف ملک کا ہر فردملی یکجہتی اور اتحاد ویگانگت کی پروئی گئی تسبیح میں ایک ہے اور آج ہر پاکستانی کی بس یہی اولین خواہش ہے کہ کسی بھی طرح سے شہرِ قائد میں امن و امان قائم ہوجائے اور معصوم انسانی جانوں کا خون بہانے کا مکروہ سلسلہ رک جائے اور پاکستان کاصنعتی و تجارتی لحاظ سے حب کہلائے جانے والاشہرکراچی ایک بار پھر امن کا گہوارہ بن جائے اور یہاں بسنے والے لوگوں کے چہروں پر چھائے خوف و ہراس اور مایوسیوں کے بادل چھٹ جائیں اور یہ اپنے معمولات زندگی ہنسی خوشی جاری رکھ سکیں۔ اگرچہ کراچی کے عوام اِس بات پر متفق ہیں اور اَب یہ عوامی آرا بھی واضح طور پرسامنے آچکی ہے کہ شہرِکراچی کے موجودہ حالات کو سیاسی کہنے والے ہی اِس کے حالات خراب کرنے کے ذمہ دار ہیں اور نہ صرف یہ بلکہ اَب اِس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اِن ہی لوگوں (فوج بلانے سے انکار کرنے والوں )ہی نے اپنی نااہلی کی وجہ سے شہر کو آگ وخون میں نہلادیاہے اگر یہ اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرلیں تو اِس میںکوئی حرج نہیں کہ آج بھی شہر کراچی میں فوری طور پر معصوم اور بے گناہ انسانوں کا خونِ ناحق بہنے سے رک جائے اور امن وامان قائم نہ ہوجائے مگر اِنہیں( سندھ انتظامیہ کو) یہ نکتہ سمجھ ہی نہیں آرہاہے کہ شہر میں پائیدار امن وامان قائم اور عوام کو تحفظ اُس وقت تک نہیں مل سکتاجب تک شہرِ قائد کراچی میں موجود ہشت گرد عناصر کے قلع قمع کے لئے فوج کی زیر نگرانی صاف وشفاف آپریشن نہ کیاجائے بس اتنی سی یہ بات سندھ انتظامیہ کو اچھی طرح سے سمجھ لینی چاہئے کہ کراچی کے مسلے کا واحد حل فوج کی آمد ہی میں پنہاں ہے اِس کا حل نہ تو پولیس کے پاس ہے اور نہ رینجرز اَب کچھ کرسکتی ہے۔ بہر حال !آج اِس میں کوئی شک نہیں کہ ملک بھر سے اپنے یہاں آنے والوں کو اپنے محبت اور خلوص کے دامن میں سمیٹنے والے شہرِ کراچی کو دشمنوں کی نظر لگ گئی ہے اِس کی پُرسکون صُبح اور دل کشا شاموں اور شام ڈھلے سجنے والی حسین بزم اور رات کی تاریک کو چیرتے برقی قمقموں سے جو ضیا ء اگلے صُبح تک رجھم رجھم برستی تھی اِن سب کو اِس شہر کی کوکھ میں پلنے والے اغیار کے آلہ کاروںاور اِ س شہر کے دشمنوں نے اپنی وحشیانہ کارروائیوں اوراپنے انسانیت سوز مظالم کی داستان رقم کرکے اِس شہر کی تمام خوبیوں کو تاریخ کا حصہ بناڈالا ہے اور آج اِس صورت حال میں اِس شہر سے محبت کرنے والے ہر محب وطن پاکستانی کی زبان پہ یہ سوال ہے کہاے صبحِ جَاں فزا،تِری صُبحوں کو کیاہوا اے شامِ دِل رُبا،تِری شاموں کو کیاہوااے بزمِ دِل کُشا، تِرے جَلوؤں کو کیاہوا اے شہرِپُر ضیائ، تِری راتوں کو کیاہوا کیوں کہ آج ہر سمت شہر کراچی میں موت اور درندوں کا رقص جاری ہے شہر کا کوئی بازار، محلہ ، گلی کوچہ اور زرہ زرہ ایسانہیں ہے جو معصوم انسانوں کے مقدس خون سے تر نہ ہوگیاہو میرے شہر کا ہر فرد اِس صُورت حال میں مضطرب ہے اور جب اِس حال میں اِسے کہیں سے کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملتاہے تو وہ اپناکلیجہ تھام کر رہ جاتاہے اور پھر کفِ افسوس ملتے ہوئے اپنے شہر قائد کراچی کی دن بدن بگڑتی ہوئی صُورت حال پرچیخ کر یہ کہہ اُٹھتا ہے کہجس میں نہ سانحے ہوں وہ ایسی شب کہاں بِن حادثوں کے گزرے کوئی ایسادن نہیںیہ عہد وہ ہے جس میں ہے ہر شخص مضطرب یہ دور وہ ہے جس میں کوئی مطمئن نہیں اگرچہ شہرقائد میں بدامنی کی جو ایک خوفناک لہر گزشتہ کئی دنوں ، ہفتوں ،ماہ اور سال سے جاری ہے اِس میں کمی آنے کے بجائے اُلٹا روزافزوں تیزی ہی آتی جارہی ہے مگر حکمران ہیں کہ اِن کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور جواِس کاتدارک کرتے بلکہ وہ توآج طرح طرح کی اپنی سیاسی مصالحتوں میں اُلجھ کر رہ گئے ہیں اور شہر کی اِس بگڑتی ہوئی صورت حال پر خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہیں اِن کی اِس بے حسی کو دیکھتے ہوئے ایسامحسوس ہوتاہے کہ جیسے اُنہوں نے دیدہ و دانستہ طور پر شہر میں امن و امان قائم کرنے کی کوششوں سے شائد اپنی نظریں چرالی ہیں اور یوں اِن کی اِس بے حسی کی ہی اصل وجہ یہ ہے کہ آ ج شہر میں انسان کے بھیس میں آدمخور دندناتے پھر رہے ہیں جومعصوم اور نہتے انسانوں کو زبان اور علاقوں کی بنیادوں پر اغواء کرنے کے بعد اپنے بنائے گئے عقوبت خانوں میں لے جاکر اِنہیں اپنی پُرتشدد کارروائیوں کے بعد اِنہیں ذبح کرکے بوری میں بندکرکے پھینک رہے ہیںجس سے شہر میں خوف وہراس اور سوگ کی فضاء ایک عرصے سے جاری ہے۔ اِس ساری صورت حال میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اَب یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حکمرانوں کو شہر کراچی میں عوام کے تحفظ اور امن وامان قائم کرنے سے کوئی غرض نہیں ہے اِن کے سامنے اگر کوئی ایک ایجنڈارہ گیاہے تو وہ صرف ایک ہی ایجنڈاہے کہ کسی بھی طرح سے اپنی حکومت سنبھالے رکھو بھلے سے عوام مرتی ہے تو مرتی رہے مگر ہماری حکومت پر کوئی ضرب نہ آئے۔ تاہم ایک عرصہ گزرجانے کے بعد گزشتہ دنوں کسی حد تک یہ خبر شہر قائد کراچی کے دوکروڑ ڈرے سہمے عوام کے لئے حوصلے کا باعث بنی کہ جب وزیراعلیٰ ہاؤس سندھ میں اپنی زیرصدارت ہونے والے کابینہ کے ایک اجلاس میں شاید دبے دبے الفاظ میں وزیراعظم سیدیوسف رضاگیلانی نے کراچی میں فوری طور پر عوام کے تحفظ اور امن وامان کے قیام کے لئے سندھ حکومت کو دہشت گردوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کرنے کی یہ کہتے ہوئے ہدایت جاری کردی کہ شہرِ قائد کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر اگر اَب بھی ایکشن نہ لیاتو پھر کوئی اور آکرلے گااور پھر اُنہوں نے کراچی میں بلاامتیاز آپریشن کی منظوری تو دے دی مگر ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیاکہ کراچی کا مسلہ سیاسی ہے اِسے سیاسی طور پر حل کرنے کے لئے سندھ انتظامیہ کو ایک ہفتے کی مہلت بھی دی جاتی ہے اور اِس کے سا تھ ہی اُنہوں نے یہ بھی کہہ دیاکہ کراچی کی اِس معمولی بگڑتی ہوئی صورت حال کو سالانہ 32ارب روپے خرچ کرانے والی پولیس اور رینجر کے ذریعے ہی حل کیاجائے یہ اور بات ہے کہ کراچی کے عوام ، تاجر برادری علماء اکرام اور سیاسی جماعتوں کایہ بھر پور مطالبہ ضرور ہے کہ کراچی شہر کی تشویشناک صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لئے فوری طور پر فوج کو شہر میں طلب کیاجائے مگر اِن سارے مطالبوں اور اپیلوں کے باوجود بھی حکومت کسی بھی صور ت میں کراچی میں فوج کو طلب کرنے کے حق میں نہیں … اِس موقع پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم کے اِس فیصلے کے بعد بھی شایدشہر کراچی میں امن و امان قائم نہ ہوسکے جس کا وزیراعظم اور سندھ انتظامیہ دعوی کررہی ہے کیوںکہ سندھ پولیس اور رینجرز اپنے اپنے اختیارات اور سیاسی دباؤ سے آزاد نہیں ہیں اگر اِنہیں پہلے ہی فل اختیارات ملتے اور یہ سیاسی اور مصالحتی دباؤ سے آزاد ہوتے تو آج شہر میں یہ نوبت ہی پیدانہ ہونے پاتی جیسی ہوگئی ہے ۔ اُدھر فنکشنل مسلم لیگ کے سربراہ وحُروں کے روحانی پیشوا اور دوراندیش بزرگ سیاستدان سائیں پیرصاحب پگاراجن کی ماضی میں بے شمار پیشنگوئیاں سچ ثابت ہوئی ہیں اور جنھوں نے ملکی سیاست پر بہت سے مثبت اور تعمیری اثرات بھی چھوڑے ہیں اُنہوں نے بھی شہر کراچی کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر سخت ترین تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہاہے کہ جب کراچی کے پریشان حال عوام فوج فوج پکاررہی ہے تو پھرکراچی میں عوام کی اِس دردبھری آواز کوسُنتے ہوئے پاک فوج کو کراچی میں آجاناچاہئے اور اُنہوں نے اِس عوامی پکار کی اہمیت کو اُجاگرکرتے ہوئے ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ وہ پہلے اکیلے تھے مگر اَب سب ہی اِن کے ساتھ مل کر یہ کہہ رہے ہیں کہ کراچی میں فوج آنی چاہئے ،اِن کہنا ہے کہ اگر اِس صورت حال میں فوج آگئی تو انشاء اللہ مارشل لا ہی لگے گا یعنی یہ کہ ستمبر کا مہینہ ستمگر ثابت ہوگایہاں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پیرسائیں پگارا نے جس انداز سے شہرکراچی میں فوج کے آنے کی نویت سُنائی ہے اِس سے یہ واضح ہوگیاہے کہ واقعی اگر فوج کراچی میں آگئی تو نہ صرف سیاستدانوں کی بچھائی گئی سیاسی بساط پلٹ دی جائے گی بلکہ جمہوری اور جمہوریت کا دن رات راگ لاپنے والی یہ حکومت بھی اپنابوریابسترا لپیٹ کر گول ہوجائے گی۔یوں کراچی میں فوج کے آنے کا بہانہ اِس نام نہادجمہوری حکومت کے خاتمے کی وجہ بنے گی اور یوں جس سے بے روزگاری، کرپشن، مہنگائی ، قتل وغارت گری اور دہشت گردی کے شکار کراچی کے دوکروڑ عوام سمیت ساری قوم کو چین اور سُکھ کا سانس نصیب ہوجائے گا۔ اور ویسے بھی کراچی میں تسلسل کے ساتھ جاری قتل وغارت گری اور اِنسانوں کی نسل کشی پر متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حُسین نے بھی واضح اور برملا طور پر یہ کہہ دیاہے کہ وزیراعظم شہرِ کراچی میں اگر عوام کو تحفظ اور امن وامان قائم نہیں کرسکتے ہیں تو وہ فوری طور پر مستعفی ہوجائیںاَب ملک کے بیشترسیاسی حلقوں اور سیاسی بصیرت رکھنے والے اہل دانش کا خام خیال یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کا یہ کہنااپنے اندر بڑی گہرائی رکھتاہے اگراُنہوں نے وزیراعظم سیدیوسف رضاگیلانی سے یہ کہہ دیاہے تو پھر یقینی طور پر وزیراعظم کو فوراََ ہی مستعفی ہوجاناچاہئے کیوںکہ یہ جناب الطاف حُسین کی سیاسی بصرت اور آگاہی تو ہے کہ جب اُنہوں نے آصف علی زرداری کو ملک کے صدر کے لئے نامزدکیاتو تب سے ہی وہ آصف علی زرداری سے صدر آصف علی زردای بن گئے اور اَب اِس لحاظ سے اگردیکھاجائے تو اَب متحدہ کے قائد الطاف حُسین نے وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کو کراچی میں امن و امان کے قیام میں ناکامی پر اِن سے مستعفی ہونے کوکہاہے تو پھر بہتری اِسی میں ہے کہ وزیراعظم یوسف رضاگیلانی تُرنت مستعفی ہوجائیںاِس ہی میں ملک اور قوم کی بھلائی ہے۔