بالآخر اپنے سیاسی آقاں اور سپریم کورٹ کے ہدایت ناموں کے مطالبات سے مجبور ہو کر ایف آئی اے کے ایک اور ڈائریکٹر جنرل کو بھی اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔ وہ ایک سال میں، ایف آئی اے کے تیسرے ڈائریکٹر جنرل تھے، جنہیں ان کے عہدے سے استعفی دینا پڑا۔یہ علامات بتاتی ہیں کہ کوئی فتنہ سر اٹھا رہا ہے۔ پورے ملک میں حکمران سیاست دانوں کی مرضی کے عین مطابق، اوپر سے نیچے تک سول سرونٹس کے تبادلے جاری ہیں۔ اپنے اثر ورسوخ کی خاطر، پسندیدہ بیورو کریٹس کی تقرریاں اور تبادلے کوئی نئی بات نہیں لیکن جس پیمانے پر یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ہر اہم عہدہ ایک سیاسی فٹ بال میں تبدیل ہو چکا ہے۔وفاقی حکومت نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے ان سرکاری ملازمین کو غیر قانونی کارروائیوں کی جانب دھکیل دیا ہے۔ ایف آئی اے میں ہونے والے واقعات اس کی ایک واضح مثال ہیں۔ نیشنل انشورنس کا معاملہ ہو، حج اسکینڈل ہو یا پھر اس سے پہلے اسٹیل مل کی تحقیقات کا قضیہ سرکاری افسروں اور ملازمین سے کہا جا رہا ہے کہ وہ دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے معاملات کو الجھانے کی کوشش کریں۔ منظر عام سے ضرورت پڑنے پر غائب ہو جائیں غرض یہ کہ ہر وہ کام کریں، جو سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے اور ان احکامات کو نہ ماننے کا جواز پیدا کر سکیں۔ ان حرکات کا مقصد صرف یہ ہے کہ پورے عدالتی عمل کو ایک مذاق بنا کر رکھ دیا جائے۔قانون اور آئین کی دھجیاں بکھیرنے کے لئے بعض ایسے حربے بھی استعمال کئے جا رہے ہیں جنہیں دیکھ کر ہی ہنسی آنے لگتی ہے۔ مثال کے طور پر بم کا شوشہ چھوڑ کر ظفر قریشی کو دفتر میں داخل ہونے سے روک دینا،مقدمے کے ریکارڈ کو چھپا دینا، تحقیقات اور تفتیش کرنے والے متعلقہ افسران کو جبری رخصت پر بھیج دینا، مقدمہ کے چشم دید گواہوں کو غائب کر دینا اور شواہد میں من چاہا رد و بدل کر دینا، یہ سب باتیں دیکھ کر بے اختیار ہنسنے کو جی چاہتا ہے۔سیاسی حکومتیں آئیں اور چلی بھی گئیں۔ لیکن اس ملک کی تاریخ میں اس سے قبل یہ دیکھنے میں کبھی نہیں آیا کہ ریاست کے مستقل ڈھانچے کوسیاسی مقاصد کے لئے اس طرح ایک تماشا بنا دیا جائے۔ چوہدری برادران بلاشبہ پچھلی نشستوں پر بیٹھے ہوئے ضرور ہیں لیکن دراصل وہ مزے لوٹ رہے ہیں اور انہیں یہ دیکھ کر بڑا لطف آ رہا ہے کہ ان کے تاریخی مخالفین اور دشمنوں پر اتنا برا وقت آن پڑا ہے کہ وہ اپنے آپ کو بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں، ہے نا افسوس کی بات !!! یہاں میں ایک شرط لگانے کے لئے بھی تیار ہوں اور وہ شرط یہ ہے کہ جس دن اور جس لمحے مونس الہی کی اس مقدمے سے بریت ہو گئی، وفاقی حکومت کے بارے میں چوہدری برادران اپنے رویوں کو فوری طور سے تبدیل کر لیں گے۔ بہر کیف جب تک پی پی پی کا اقتدار قائم ہے وہ اسے کبھی چھوڑیں گے نہیں لیکن اس کے لئے مشکلات ضرور پیدا کریں گے اور اگر پی پی پی کی حکومت ذرا بھی کمزور ہوئی تو چوہدری اس کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے سے بھی باز نہیں آئیں گے۔ جب کوئی ان کے استعمال کے قابل نہیں رہتا تو وہ اسے ٹھوکر مارنے میں بڑی استادی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس کی ایک واضح اور نمایاں مثال سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی ہے۔بہر نوع اس تمام کھیل میں اصل شکست سول سرونٹس کی ہے جن کو سپریم کورٹ کے احکامات اور فیصلوں پر عملدرآمد نہ کرنے کیلئے مجبور کیا جا رہا ہے بلکہ اس سارے عمل کے دوران ان کی سیاسی تائید و حمایت بھی، غلطی سے سہی ، عوام کے روبرو آتی جا رہی ہے۔ چنانچہ جب تک یہ سول سرونٹس موجودہ حکومت کی ملازمت میں ہیں، ان پر ایک مخصوص سیاسی پارٹی کی چھاپ لگ چکی ہے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ اس قسم کے تعلقات یا تو زندگی بنا دیتے ہیں یا پھر اسے تباہ وبرباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی بہت سی مثالیں پیش کر سکتا ہوں جن کے پاس کسی ایک سیاسی جماعت کے برسراقتدار آنے کے بعد کوئی کام نہیں تھا لیکن دوسری سیاسی جماعت کے اقتدار میں آنے کے بعد وہ بلندیوں کو چھونے لگے۔ ہو سکتا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک یہ ایک محفوظ سیاسی سرمایہ کاری ہو لیکن یہ ایک جمہوری ریاست کے مقدس اصولوں کی پامالی ہے۔ ایک جدید جمہوری ریاست، عدلیہ انتظامیہ اور قانون ساز اداروں کے مابین تقسیم اختیارات پر مبنی ہوتی ہے کہ جس کا مقصد ایک ایسے نظام کی تخلیق ہے جو بالخصوص انتظامیہ کے اقدامات کی جانچ پڑتال کر سکے۔ تاہم عدلیہ اور قانون ساز ادارہ بھی اس اصول سے ماورا نہیں ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی ادارے کو اپنی آئینی حدود اور اختیارات سے تجاوز کر کے عمل نہ کرنے کا پابند بنایا جائے۔ بہرحال ایک بات جسے بالعموم فراموش کر دیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ انتظامیہ میں بھی اختیارات کی تقسیم کا وجود ہوتا ہے۔ سیاست دانوں کو عوام منتخب کرتے ہیں جو اپنے مفادات کے عین مطابق پالیسیوں کی تشکیل کرتے ہیں۔ بیورو کریسی ان پالیسیوں پر عملدرآمد کو یقینی بناتی ہے۔ بعض دیگر امور و معاملات کے سلسلے میں فیصلہ سازی کا اختیار سیاسی آقاں کے ہاتھ میں ہوتا ہے تاہم یہ اختیارات، ریاست کے ادارتی دائرہ عمل سے خارج ہوتے ہیں۔ ان ادارتی دائرہ ہائے عمل کا تعلق ریگولیٹری فریم ورک سے ہوتا ہے۔ مثلا اسٹیٹ بینک آف پاکستان ،آڈیٹر جنرل کا دفتر، سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن، آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی وغیرہ وغیرہ چنانچہ انتظامیہ کو کوئی حق اور اختیار حاصل نہیں کہ وہ ان اداروں کے کام میں مداخلت کر سکے لیکن یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ بہت سی ایسی ریاستی ایجنسیاں ہیں جو قانون کے تحت رہ کر کام کرتی ہیں اور جب کبھی کوئی خلاف قانون واقعہ رونما ہوتا ہے وہ فورا حرکت میں آ جاتی ہیں۔ اس کی واضح ترین مثال پولیس کا ادارہ ہے جو وفاقی اور صوبائی سطح پر مختلف فرائض کی ادائیگی کرتا ہے، جب کبھی جرم کی کوئی واردات ہوتی ہے تو پولیس کو فوری طور سے کارروائی کرنی چاہئے۔ اسے کسی جانب سے سیاسی ہدایت کا انتظار ہرگز ہرگز نہیں کرنا چاہئے۔دوسرے لفظوں میں پولیس اور اس جیسی دوسری ایجنسیاں جو ریاست کے ضابطوں کا نفاذ کرتی ہیں،اس حد تک خود مختار ہوتی ہیں چنانچہ منتخب انتظامی اتھارٹی کے اختیارات غیر محدود نہیں ہوتے اور نہ وہ کسی بھی ایسی ایجنسی کے روزمرہ کاموں میں کوئی مداخلت کر سکتی ہے۔ ایک موثر جمہوری حکومت کو چلانے کے لئے اس فرق کو ذہن نشین رکھنا ضروری ہے لہذا یہ قرین قیاس اور ممکن ہے کہ دنیا کے سب سے زیادہ طاقتور ملک کے، طاقتور صدر کی بیٹی کو نشے کی حالت میں کار چلانے سے روکا جا سکے اور اس کا چالان کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ برطانیہ کے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والوں اور سینئر برطانوی سیاست دانوں کا تیز رفتاری سے کار چلانے کے جرم میں چالان بھی ہوتا رہتا ہے۔بیورو کریسی کو اپنے سیاسی آقاں کی ہدایات پر عملدرآمد ضرور کرنا چاہئے اگر ان کا تعلق پالیسی کے نفاذ یا دیگر چھوٹے بڑے فیصلوں سے ہو لیکن جب بات ریاست کے قانونی اعمال کے نفاذ کی آ جائے تو ان کے کام میں حکومت کی مداخلت بے جا کا قطعا کوئی جواز نہیں رہتا ۔ صرف منتخب ہو جانے ہی کو جمہوریت نہیں کہتے۔ اس کا مطلب ہے نظام کے اندر موجود توازن طاقت کو کام کرنے کا موقع فراہم کرنا بصورت دیگر نام فقط جمہوریت کا رہ جاتا ہے جب کہ آمریت اپنے جلوے دکھاتی رہتی ہے۔چنانچہ وقت آن پہنچا ہے کہ جب کبھی وفاقی حکومت کو سپریم کورٹ کے احکامات اور فیصلوں پر عملدرآمد نہ کرنے یا سول سرونٹس کو ان کی قانونی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے روکنے کا مرحلہ درپیش ہو تو وہ اس وسیع تناظر کو ذہن میں ضرور رکھے۔ ورنہ ورنہ سارا الزام اسے اپنے ہی سر لینا ہو گا۔ تحریر : شفقت محمود