وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ سرحد پار افغانستان سے پاکستانی علاقوں میں شدت پسندوں کے حملوں کو روکنے کے لیے دونوں ملکوں کی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور سکیورٹی کے اداروں کے درمیان زیادہ موثر رابطوں کی ضرورت ہے۔ نیوز کانفرنس سے خطاب میں انھوں نے شمالی پہاڑی ضلع چترال میں افغان سرحد عبور کر کے آنے والے عسکریت پسندوں کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کو بھی ایسے حملوں کو روکنے میں اہم کردار ادا کرنا چاہیئے۔ کچھ ایسے عناصر ہیں جو نہیں چاہتے کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بہتر ہوں اور اس طرح کے حملے دونوں ممالک میں کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش کے مترادف ہیں۔ وزیر اعظم گیلانی نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور ان کا ملک امریکہ کے ساتھ مل کر یہ لڑائی لڑ رہا ہے۔ ہفتہ کی صبح افغان صوبوں کنڑ اور نورستان کی طرف سے آنے والے لگ بھگ 300 مسلح عسکریت پسندوں نے چترال میں سکیورٹی فورسز کی متعدد سرحدی چوکیوں پر خود کار ہتھیاروں سے حملہ کیا تھا جب کہ دہشت گردوں نے ان پر مارٹر گولے بھی داغے۔ چترال میں مقامی انتظامیہ کے اعلی عہدے داروں کے مطابق شدت پسندوں کے حملے میں ہلاک ہونے والے اہلکاروں کی تعداد 32 ہوگئی ہے، جب کہ چار اہلکار لاپتہ ہیں۔ پاکستانی فوج کے ایک بیان کے مطابق جوابی کارروائی میں 20 حملہ آورمارے گئے تھے۔ بیان میں کہا گیا کہ حملے میں ملوث دہشت گردوں کا تعلق سوات، دیر اور باجوڑ سے تھا جنھیں مفرور طالبان کمانڈرز مولوی فقیر محمد اور فضل اللہ نے افغان جنگجوں کی مدد سے چترال میں چیک پوسٹوں پر حملے کے لیے منظم کیا تھا۔ ان حملوں کے بعد ہفتہ کی شب اسلام آباد میں افغان سفارت خانے کے ناظم العمور کو دفتر خارجہ طلب کر کے چترال میں عسکریت پسندوں کے حملے پر شدید احتجاج کیا گیا تھا۔ چترال میں گزشتہ سال بھی سرحد پار سے شدت پسندوں نے حملہ کیا تھا جب کہ رواں برس افغانستان کے سرحدی علاقوں میں چھپے جنگجوں نے دیر اور باجوڑ کے علاقوں میں مقامی لوگوں اور سکیورٹی فورسز پر ہلاکت خیز حملے کیے تھے۔ دریں اثنا پاکستانی فوج نے سوات کے علاقے منگل تان میں اتوار کو مشتبہ دہشت گردوں کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن کے دوران دو شدت پسندوں کو گرفتار کر کے ان کے قبضے سے اسلحہ و بارود بھی برآمد کیا۔