چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے آئی جی سندھ کو ہدایت کی ہے کہ شہر بھر میں بلا امتیاز آپریشن کیا جائے اور اپنی مرضی کی پولیس افسران کی ٹیم منتخب کرکے کراچی میں امن کیلئے دن رات کام کریں سپریم کورٹ آپ کے ساتھ ہوگی۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کراچی میں بدامنی سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں ہوئی دیگر ججز میں جسٹس انور ظہیر جمالی ، جسٹس سرمدجلال عثمانی ، امیر ہانی مسلم اور جسٹس غلام ربانی شامل ہیں ۔ کیس کی سماعت کے دوران آئی جی سندھ نے رپورٹ پیش کی جس پر عدالت نے عدم اطمینان کا اظہار کیا ۔ عدالت کے لارجر بینچ نے ٹارچر سیلوں میں تشدد کی ویڈیو فوٹیج عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس نے آئی جی سندھ سے استفسار کیا ہے کہ مغویوں سے کیا بات ہوئی جس پرآئی جی سندھ نے بتایا کہ صرف چار افراد نے ایف آئی آر درج کروائی جبکہ باقی افراد نے سامنے آنے سے انکار کردیا ۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے کوئی ٹارچر سیل پکڑا جس پر آئی جی سندھ نے کہا کہ لیاری میںآ پریشن اور ٹارچر سیل کے خلاف کارروائی رینجرز نے کی اور ابھی انہوں نے اس حوالے سے ہم سے معلومات کا تبادلہ نہیں کیا ہے۔ آئی جی سندھ نے پولیس کی کارکردگی بتاتے ہوئے کہا کہ چار سو بیس چھاپے مارے ہیں اور صرف گزشتہ روز پانچ ٹارگٹ کلرز کو گرفتار کیا ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ٹی وی پر ملزمان کو لا کر کیس کو خراب کیا جاتا ہے۔ جبکہ امیر ہانی مسلم نے کہا ک ملزمان کو تاحال عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں جن ملزمان کا نام آیا اس پر آپ نے کیا اقدام اٹھایا جس پر آئی جی نے کہا کہ ہم نے تمام ایس ایچ اوز کو ہدایت جاری کردی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ مسٹر آئی جی بہت ہوچکا کورٹ روز روز نہیں بیٹھے گی جمعہ تک سماعت مکمل کرنا چاہتے ہیں ۔ عزت ہی نہیں نوکری بھی اللہ تعالی نے دی ہے اگر آپ پر کوئی دبا ہے کہ تو اپنی مرضی کی ٹیم منتخب کرکے شہر بھی میں بلا امتیاز کارروائی کریں ۔ جسٹس غلام ربانی نے ریمارکس میں کہاکہ کراچی میں مرنیو الے افرا د کی لاشیں بھی رفاعی ادارے اٹھاتے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کراچی کی ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے اگر آپ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرینگے تو آپ پھنس جائینگے۔ اس سے قبل سندھ بچا کمیٹی کے وکیل عبدلمجیب پیرزادہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کراچی میں وسائل کے حصول کیلئے جنگ لڑی جارہی ہے۔ کراچی میں جو پولیس کا افسر ایماندار ی کے ساتھ کام کرتاہے اس کو قتل کردیا جاتا ہے یا کھڈ لائن لگادیا جاتا ہے۔ کمشنری نظام کی بحالی پر صوبے بھر میں خوشیاں منائی گئی تاہم گورنر سندھ نے رات گئے نوٹیفکیشن کے ذریعے بلدیاتی نظام بحال کردیا ۔ عبدالمجیب پیرزادہ نے کہا کہ ذوالفقارمرزا نے تین لاکھ لائسنس بانٹے جبکہ وزیراعظم نے بھی آتشی اسلحہ کے ہتھیار کے لائسنس تقسیم کئے۔ بے نظیر بھٹو اور مرتضی بھٹو کو بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا ۔ عوامی نیشنل پارٹی کے وکیل افتخار حسین گیلانی نے کہا کہ کراچی میں جاری دہشت گردی کو گینگ وار کا نام دینا غلط ہے۔ کراچی پاکستان کا حصہ ہے حکومت جانتی ہے کون قتل و غارت گری میں ملوث ہے۔ حکومت سے بھیک مانگنا ہوں کہ قتل و غارت گری کو لسانیت کا رنگ نہ دی جائے۔ انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سات خفیہ اداروں کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق کراچی میں دہشت گردی میں ملوث افراد بھارت سیتربیت یافتہ ہیں عدالت ذوالفقارمرزا کو طلب کرے۔ بعد ازاں ازخود نوٹس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔ اس موقع پر انتہائی سخت حفاظتی انتظامات کئیے گئے تھے جبکہ سپریم کورٹ کے باہر لاپتہ افراد کے لواحقین کا مظاہرہ بھی کیا۔