چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ عدلیہ نے ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر فرائض سرانجام دینے کا عہد کر رکھا ہے حالیہ عدلیہ کے فیصلوں نے گڈگورننس کی اہم اصول وضع کیے ہیں۔ نئی عدالتی سال کے آغاز کے موقع پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ترقی کے باوجود مسائل کی وجہ بار بار آئین سے انحراف ہے عدلیہ نے حالات کی ابتری سے سیکھا ہے اور عدلیہ نے آئین اور قانون کے تحفظ کا مصمم ارادہ کر رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان ججز کا تقرر آئین کے مطابق ہو گاجوڈیشل کمیشن کے23 اجلاسوں میں سو ججزکو تعنیات کرنے کی سفارش کی آئین ریٹائرڈ ججز کو دو سال تک ملازمت کرنے سے منع کر تا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریٹائرڈ ججز اپنے مرتبے کے منافی کوئی عہدہ قبول نہ کرے۔ اس موقع پر سپریم کورٹ بار کی صدر عاصمہ جہانگیر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جوڈیشل کمیشن میں ججوں کی تقرری کے لیے کسی متعین اصول پر عمل نہیں ہورہا۔ حساس اداروں کی رپورٹ پر کسی وکیل کو جج بننے کا نا اہل کردیا جاتا ہے جبکہ بعض کیسز میں حساس اداروں کی رپورٹ کو نظر انداز کو دیا جاتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ گزشتہ سال سپریم کورٹ میں ریکوڈک ، مختارا مائی، کم از کم تنخواہ سمیت کئی اہم مقدمات کی سماعت ہوئیں جبکہ ججوں کی تقرری کا معامہ خوش اسلوبی سے چل رہا ہے۔