آسٹریلیا کی حکمران جماعت ‘لیبر پارٹی’ کے رہنماوں کے درمیان امیگریشن سے متعلق ملکی قانون میں ترمیم پر اتفاق ہوگیا ہے جس کے نتیجے میں حکومت غیر قانونی تارکینِ وطن کے ملائیشیا کے ساتھ تبادلہ کے منصوبے پر عمل درآمد کرسکے گی۔حکمران جماعت کے قانون سازوں نے پیر کو منعقد ہونے والے ایک بند کمرہ اجلاس میں مجوزہ قانون کو پارلیمان کے سامنے پیش کرنے کی منظوری دی۔واضح رہے کہ آسٹریلوی ہائی کورٹ نے تارکینِ وطن کے تبادلے کے اس منصوبے کو خلافِ قانون قرار دے دیا تھا۔ تاہم مجوزہ قانون سازی کے ذریعے امیگریشن کے موجودہ آسٹریلوی قانون میں ترمیم کی گی جس کے نتیجے میں حکومت کو منصوبے پر عمل درآمد کا راستہ میسر آجائے گا۔تاہم حکمران جماعت کو مجوزہ آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے اب بھی بعض آزاد اور اپنی اتحادی جماعت ‘گرین پارٹی’ کے قانون سازوں کی حمایت درکار ہوگی جن کی بدولت ‘لیبرز’ کو ملکی پارلیمان میں ایک نشست کی اکثریت حاصل ہے۔تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ آیا حزبِ مخالف کی جماعت ‘لبرل پارٹی’ مجوزہ آئینی ترمیم کی حمایت کرے گی نہیں۔ لبرل رہنما غیرقانونی تارکینِ وطن کو جزیرہ نما ملک نارو میں واقع جیل میں رکھنے کی تجویز پیش کرتے آئے ہیں جس کی قانونی حیثیت وزیرِ اعظم جولیا گیرالڈ کے بقول ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلہ کے بعد مشکوک ہوگئی ہے۔تاہم لبرل قانون سازوں کا موقف ہے کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ تارکینِ وطن کو نارو میں قید رکھنے پر قدغن نہیں لگاتا۔مجوزہ آئینی ترمیم کی منظوری کی صورت میں آسٹریلوی حکومت ‘ملائشیا سلوشن’ نامی منصوبے پر عمل کرسکے گی جس کے تحت غیر قانونی طریقے سے آسٹریلیا پہنچنے والے 800 تارکینِ وطن کو اس وقت تک ملائشیا میں قید رکھا جائے گا جب تک آسٹریلوی حکام ان افراد کی جانب سے دائر کردہ پناہ کی درخواستوں کا فیصلہ نہیں کرلیتے۔جوابا آسٹریلیا ملائشیا سے چار ہزار قانونی تارکینِ وطن کو اپنی سرزمین پر قبول کرے گا۔آسٹریلوی ہائی کورٹ نے مذکورہ منصوبہ اس بنیاد پر غیر قانونی قرار دے دیا تھا کہ ملائشیا نے قیدیوں پر تشدد اور پناہ گزینوں کے ساتھ سلوک سے متعلق بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط نہیں کیے ہیں۔آسٹریلوی وزیرِا عظم کا موقف ہے کہ مذکورہ منصوبے سے پناہ کی تلاش میں غیر قانونی طریقے سے آسٹریلیا آنے والے افراد کی حوصلہ شکنی ہوگی جو انسانی اسمگلرز کو بھاری رقم دے کر خستہ حال کشتیوں کے ذریعے آسٹریلیا پہنچتے ہیں۔