دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی مقدس ترین الہامی کتاب قرآنِ کریم کا آغاز مولائے کل نے اَلحَمدُ للہ رَبِ ا لعالَمِین سے کرکے پوری انسانیت کو اپنے سامنے سرنگوں ہونے کا حکم دے رکھا ہے ۔ خدائے علیم و بصیر نے بڑے واضح انداز میں پیغام دے دیا ہے کہ صرف خدا کی ہستی ہی قابلِ پرستش اور لائقِ عبادت ہے۔ اسی سے اپنی حاجات اور آرزئوں کی دعائیں مانگیں جا سکتی ہیں اور صرف اسی کے سامنے جھکا جا سکتا ہے۔ ظاہر ا اَلحَمدُ للہ رَبِ ا لعالَمِین کے یہ چار (٤)الفاظ بہت مختصر سے نظر آتے ہیں لیکن ان کے اندر معار ف و معنی کا بحرِ بیکراں ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ اَلحَمدُ للہ رَبِ ا لعالَمِین کے یہی مختصر سے چار الفاظ اس جہانِ رنگ و بو میں ربِ ذولجلال کی ہستی کے بزرگ و بر تر اور اعلی وارفع ہو نے کا اعلان بھی ہیں اور اسکے واحدہ لاشریک ہونے کا اظہار بھی ہیں۔ اَلحَمدُ للہ رَبِ ا لعالَمِین کے یہ چند الفاظ دنیا کو باور کراتے ہیں کہ خدا ہی کے قبضہِ قدرت میں ہر ذی روح کی جان ہے اور وہی سب کا آقاو مولا ہے اور روزِ محشر اسی کے سامنے سب کو پیش ہونا اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ خدا ہی وہ واحد ہستی ہے جسکی پوری کائنات میں حمد و ثنا کی جا سکتی ہے اور اسے ہی اپنی ساری آرزئوں کا مرکز بنا یا جا سکتا ہے کیونکہ وہی تو ہے جو سبکی مردایں پوری کرنے اور جھولیاں بھرنے کی طاقت رکھتا ہے۔وہی تو ہے جو کُل شیِِ قدیر ہے۔ اس میں شک و شبہ کی مطلق کوئی گنجائش نہیں کے کہ خدا ہی اس کائنات کو عدم سے وجود میں لایا ہے۔جو کوئی بھی خدا کے علاوہ کسی اور سے حاجت روائی کا تصور کرتا ہے وہ شرک کا مرتکب ہو تا ہے اور شرک کو خدا کے ہاں معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس کی وجہ یہ نہیں کہ خدا اپنے کسی مدِ مقابل کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہو تا تو پھر ابلیس کو قیامت تک لوگوں کو گمراہ کرنے اور انسانوں پر اپنا زور چلانے کی اجازت مرحمت نہ فرمائی جاتی۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا شرک کو اس لئے پسند نہیں فرماتا کیونکہ وہ شرک کو انسانیت کی تذلیل سمجھتا ہے۔ خدائے بزرگ و بر تر کی موجودگی میں اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا اور ن سے مرادیں مانگنا انسان کی تذلیل نہیں تو پھر اور کیا ہے اور یہی و جہ ہے کہ خدا ہر قسم کے شرک کو ناقابلِ معافی جرم قرار دیتا ہے۔جھکناہے تو اس اعلی وبرتر ہستی کے سامنے جھکو جو ہر شہ کا خالق و مالک ہے،جو مالکِ روزِ جزا ہے، جس نے اپنی قدرتِ کاملہ سے تمام موجودات کو وجود بخشا، انکی ٹھیک ٹھیک ترتیب فرما ئی اور جس کا فضل و کرم اور عنائیت ہی انسانوں کو نارِ جہنم سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ جس کی رحمت ان پر نوزشوں کی بارش برسا سکتی ہے،ان کیلئے جنت کے دروازے کھول سکتی ہے اور انھیں ایسی زندگی عطا کر سکتی ہیں جس میں دودھ کی نہریں بہتی ہوں گی اور جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رہیں گئے۔ بے خوف و خطر ،خوش و خرم اور حزن و ملال سے پاک۔ پوری دنیا کہ صاحبِ نظر لوگوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایک وقت ایسا تھا جب کچھ بھی نہ تھا صرف خدا تھا لہذا خدا نے چاہا کہ میں پوشیدہ نہ رہوں بلکہ پہچا نا جائوں۔ جب اس نے خود کو اپنی صفات کے آئینے میں د یکھنے کا قصد کیا تو اس نے انسان کی تخلیق کا فیصلہ کیا اسی لئے تو انسان کو احسنِ تقویم کہا گیا ہے۔ خدا نے اپنی بہت سی صفات کا ہلکا ہلکا شمہ انسان کی فطرت میں ودیعت کر دیا تا کہ وہ اگر اس زمین پر اس کے اظہار کا پرتو ہے توپھر اس میں خدائی صفات کی موجودگی بھی ضروری ہے۔ خلیفة الارض حدِ بشریت میں رہتے ہوئے خدائی صفات کا عکس اپنے اندر رکھتا ہے لہذا ضروری تھا کہ انسان خدا کی عطا کردہ ان تمام صفات کو انسانیت کی فلاح و بہبود اور اس کی نجات کیلئے صرف کرتا لیکن اس کے بر عکس انسان نے اَلحَمدُ للہ رَبِ ا لعالَمِین میں پوشیدہ صفتِ رحمانی کا صحیح ادراک کرنے،ا س پر لبیک کہنے اور اس پر خصوصی توجہ د ینے کی بجائے خود کو ہی الوہیت کے مقام پر فائز کر لیا اور نسانوں کو اپنی اطاعت کرنے پر مجبور کر دیا۔ انھیں بزورِ قوت اس بات پر مجبور کیا کہ وہ اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں اور سے خدا سمجھ کر اس سے اپنی حا جت روائی کی بھیک مانگھیں حضرت موسی کے قصے میں جب حضرت موسی فرعون کے سامنے خدا کا تصور رکھتے ہیں اور اسے بتاتے ہیں کہ خدا وہ ہے جو انسانوں کو زندگی عطا کرتا ہے اور وہی ہوے جو انھیں موت سے ہمکنار کرتا ہے تو تو فرعون کہتا ہے کہ یہ تو میں روز ایسا کرتا ہوں ۔میرے حکم پر بھی زندگی اور موت کے فیصلے صادر ہو تے ہیں لہذا تسلیم کرو کہ میں خدا ہوںحضرت موسی کہتے ہیں کہ میرا خدا تو سورج مشرق سے نکالتا ہے اگر تو خدا ہے تو سورج کو مغرب سے نکال کر دکھا لیکن اس دلیل کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا لہذا حضرت موسی کو ذلیل و خوار کر کے دربارِ فرعون سے نکال دیا گیا۔ انسانی تاریخ ایسے بے شمار افراد کے تذ کروں سے بھری پڑی ہے جنھوں نے اَنا رَ بُکُم کا نعرہ بلند کر کے انسانیت کو اپنے آہنی پنجوں میں جکڑ کر اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنا یا۔انسانیت چیختی چلاتی رہی بین کرتی رہی روتی اور کرلاتی رہی لیکن ان سفاک اور بے رحم انسانوں کے اندر جذبہِ تر حم کبھی بیدار نہ ہوا۔ وہ انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنا تے گئے، تیز دھار آروں میں انسانوں کو چیرتے رہے، ابلتے تیل کے گرم کڑاھوں میں انسانوں کو زندہ تلتے رہے اور کبھی کبھی آگ کے شعلوں میں جلا کر خا کستر بھی کرتے رہے کیونکہ ان کا مقامِ الو ہیت ان سے انہی رویوں کا تقاضہ کر رہا تھا۔ انانیت کا مادہ شائد ا نسانی تخلیق کے ساتھ ہی انسان میں ودیعت کر دیا گیا تھا تبھی تو اس کی کوئی حدودو قیود نہیں ہیں۔ انانیت پرستی کی شمشیرِ برہنہ نے جس قدر شدید نقصان انسانیت کو پہنچایا ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ انسانیت نے جتنے گہرے گھائو انسان کی اس صفتِ انانیت سے کھائے ہیں شائد کسی اور صفت سے نہیں کھائے ۔ ضد، ہٹ دھرمی، انتقام ، زیر دستوں پر جو رو ستم اور اپنے موقف کی اٹل سچائی پر غیر لچک دارانہ رویہ ایسے بنیادی عناصر ہیں جن سے انسا نیت کا بے رحم قتل کیا گیا اور ایسا کرتے وقت کسی بالا تر ہستی کا تصور تک دل میں جگہ نا پا سکا اور بیدار نہ ہو سکا۔ تا ریخ میں اس فکر و عمل کے سب سے بڑے نمائندے فرعون ،نمرود، شداد، قارون، ہامان، ابو جہل اور ابو لہب وغیرہ ہیں جنھیں صفحة ہستی سے مٹانے کیلئے خدا کو انبیائے کرام کو معبوث کرنا پڑا تاکہ ان کے جورو ستم سے انسانیت کو نجات مل سکے لیکن انسان کے ہاتھوں انسان پر ظلم و جبر کا یہ سلسلہ پھر بھی رک نہ سکا۔ جدید تاریخ میں دو عالمی جنگوں نے جس طرح کروڑوں انسانوں کے قتلِ عام کا منظر د کھایا وہ انتہائی بھیانک تھا لیکن اس کے باوجود بھی مقامِ الوہیت پر فائز ہونے کے انسانی رویوں میں کوئی کمی نہ آئی۔حالیہ چند برسوں میں دنیا کی اکلوتی سپر پاور امریکہ نے عراق اور افغانستان پر فوج کشی کر کے جس طرح لاکھوں لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیلا اس کی مثال تلاش کرنا بھی مشکل ہے۔ جھوٹ اور بد نیتی کی بنیادوں پر ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کی ایک فرضی کہانی تخلیق کی گئی اور پھر عراق پر حملہ کر کے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ عراق دہائی دیتا رہا کہ مجھ پر سارے الزمات جھوٹ کا پلندہ ہیں اور امریکہ کی توسیع پسندانہ عزائم کا حسہ ہیں لیکن کوئی ایک ملک بھی عراق کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہ ہوا کیونکہ امریکی رعونت کے سامنے کھڑا ہونا کسی کے بس میں نہیں تھا۔ حیف صد حیف کہ اَلحَمدُ للہ رَبِ ا لعالَمِین کے اندر مالکِ کون و مکاں کیلئے پوشیدہ حمد و ثناء کا جلوہ کسی طرح بھی انسانوںکی فکر و عمل کے اندر جلوہ افروز نہ ہو سکا بلکہ اس کے بر عکس ا نھوں نے خدائی دعوی کر کے دوسرے انسانوں کو اپنا غلام بنا نے کا ارادہ کر لیا۔ا گر ہم بنظرِ تعمق دیکھنے کی کوشش کریں تو انسانیت کی پوری تاریخ جبر سے رہائی اور مستقل اقدار کے احیا اور نفاذ کی داستان ہے۔کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسانوں کی بے پناہ قربانیوں اور جدو جہد کے سامنے تخریبی قوتیں کمزور پڑ جاتی ہیں اور کمز ورو ناتواں لوگ عزت و تکریم اور اقتدار سے سے نوازے جاتے ہیں ۔اگر چہ ایسا شاذو نادر ہو تا ہے اور صد یوں میں کبھی کبھار ایسا ہو تا ہے لیکن بہر حال ہوتا ضرور ہے۔ تاریخ کے ایسے شاذو نادر لمحات کو دنیا انقلاب کے نام سے یاد کرتی ہے لیکن اس انقلاب کے دور کا دورانیہ بھی بہت مختصر ہوتا ہے۔ حکومت، اقتدار، مال و دولت ،اختیار و ارادہ اور بے پناہ قوت کا سحر آخرِ کار انقلابیوں کو بھی اپنے پیشر ئوو ں کے رنگ میں رنگ دیتا ہے اور وہ بھی ظلم و ستم کا بازار گرم کر نے ور نا انصافیوں کو پروان چڑھانے کی جانب پیشقدمی شروع کر دیتے ہیں جس سے دنیا پر نا انصافی اور ظلم و جبر بھر سے اپنی باہیں پھیلانا شروع کر دیتا ہے۔ استبدادی اور استحصالی قوتیں روپ بدل کر نئے حکمرانوں کی کاسہ لیس بن جاتی ہیں اور پھر ذرائع پیداوار پر غلبہ حاصل کر کے انسانیت کو دوبارہ اپنے آہنی پنجوں میں جکڑ لیتی ہیں اور لوگوں کو اپنی نفسانی خو ا ہشات کا غلام بنا کر ان کی زندگی کو اجیرن بنا کر رکھ دیتی ہیں۔ جس برائی کے خاتمے کے لئے انسانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے تھے،سرِ دار جھولے تھے،خون کا خراج دیا تھا ،زندانوں کی بے رحم صعوبتوں کو برداشت کیا تھا اور سخت جدو جد کے بعد تبدیلی کو یقینی بنا یا تھا قصہ پارینہ بن جاتی ہے ۔۔ تاریخ ہمیں بتا تی ہے کہ ازل سے یہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسے ہی ہوتا رہے گا کیونک انسان کے اندر مقامِ الو ہیت پر فائز ہونے کی خواہش تمام خواہشوں سے قوی تر ہوتی ہے اور مقامِ الوہیت پر فائز ہونے کی اس کی یہ مکروہ خواہش ہمیشہ خونِ انسان سے ہی تکمیل، رعنائی اور توانائی حاصل کر تی ہے لہذا ظلم و ستم کا بازار گرم ہو نا ایک فطری عمل ہوتا ہے جس کا مشاہدہ ہم روزانہ اپنی کھلی آنکھوں سے کرتے رہتے ہیں۔انسا نیت کے خلاف نا انصافی اور عدمِ مساوات کا جو چلن اس وقت دیکھنے کو مل رہا ہے اس کا تقاضا ہے کہ ہم حق و انصاف کے لئے اپنی جدو جہد تیز کر دیں کیونکہ انسانیت کو امن کی جتنی ضرورت اس وقت ہے شائد اس سے قبل یہ ضرورت کبھی اتنی شدید نہیں تھی۔ انسانیت امن کی متلاشی ہے اور کرہِ ارض کے حکمران جنگ و جدل کے آرزو مند ہیں تا کہ کمزور اور نا تواں قوموں کو اپنا غلام بنا کر ان پر اپنا تسلط قائم کرلیں اور پھر انھیں اپنی اطاعت پر مجبور کر دیں ۔ مقامِ الو ہیت پر فائز ہو نے کی یہی ہے وہ روش جس کی وجہ سے انسانوں کی ہر بستی فساد کا منظر پیش کر رہی ہے۔ دھشت گردی اور شدت پسندی معاشرتی قدروں اور امن کا خون کر رہی ہے اور انسانیت ان بلائوں کے ہاتھوں نوحہ خواں ہے۔ جھوٹ اور سچ، مکر و فریب اور حق و باطل کے درمیان یہ جنگ اس وقت تک جاری و ساری رہے گی جب تک دنیا مستقل اقدار کی محافظ بن کر کھڑی نہیں ہو جاتی اور جورو جبر کو جڑ سے اکھاڑنے کا قصد نہیں کر لیتی۔ یاد رکھو عدل و انصاف کی حکمرانی قائم کرنے کی آرزو ہے تو پھر جبر کے سامنے ڈٹ جانا ہو گا اور جب کبھی بھی عوام الناس باطل کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند ڈٹ جاتے ہیں تو فتح حق کا ہی مقدر بنتی ہے کیونکہ یہی مالکِ کائنات کا اٹل فیصلہ ہے کہ آخرِ کار حق کے سامنے باطل کو شکستِ فاش سے دوچار ہو کر مٹ جانا ہے کیونکہ باطل کا کام ہی مٹ جانا ہوتا ہے۔سچائی کی جیت یقینی ہوتی ہے لیکن اسے خونِ جگر چائیے اور خونِ جگر کے لئے جراتیں درکار ہوتی ہیں اور جراتیں منجمد اندھیروں میں سچ کے سورج کو طلوع کرنے کے لئے جان ہتھیلی پر رکھ کر میدانِ عمل میں نکل پڑنے کا تقاضا کرتیں ہیں۔ جو کوئی بھی راہِ وفا میں یہ معجزہ سر انجام دے جاتا ہے فتح اسی کا مقدر بن جاتی ہے۔یہ فتح در حقیقت مقامِ الوہیت پر فائز ہونے والوں کی ہر خواہش کے ابطال کا اعلان ہوتی ہے کیونکہ اس فتح کے دامن میں عوام الناس کی محبت کے رنگ برنگے پھول سجے ہوتے ہیں۔ ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز۔۔ چراغِ مصطفوی سے شرارِ بو لہبی (ڈاکٹر علامہ محمد اقبال)تحریر : طارق حسین بٹ