پاکستان کے عوام دہشت گردی ، تعلیم، غربت، طبی سہولتوں کا فقدان اور دیگر مسائل کا شکار ہیں ان سے نجات کوئی مسیحا ہی دلا سکتا ہے ورنہ ملکی حالات کے پیش نظر حکومتوں کے رد و بدل سے یہ امکان دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ مگر گزارش ہے کہ امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں کیوں کہ ہر سورج کے غروب ہونے کے بعد چاند طلوع ہوتا ہے۔
آج کل تعلیمی اداروں میں ایک وبا ہے جو ہر طرف پھیلی ہوئی ہے وہ ٹیوشن کا بخار ہے۔ ہمارے ہاں یہ کلچر عام ہے اور اگر ٹیوشن نہ لو تو اسکول کے بچے طنز کرتے ہیں۔جو بچے ٹیوشن لیتے ہیں وہ اساتذہ کی نظر میں رہتے ہیں۔ اب یہ ایک امیر انسان کی پہچان بن گیا ہے کہ اس کے پاس گاڑی ہے، بنگلہ، نوکر چاکر اور بینک بیلنس ہے اور کیا اس کے بچے مہنگے کوچنگ سینٹر میں ٹیوشن پڑھتے ہیں یا نہیں۔
افسوس ہمارا معاشرہ کہاں جا رہا ہے، کیوں اس قدر تنگ نظری کے بادل ہمارے اوپر منڈلا رہے ہیں۔ پاکستان میں شرح خواندہ پستی کی طرف جا رہی ہے، ہماری ڈگری کی دوسرے ممالک میں حیثیت نہیں رہی۔ تعلیم اداروں کی صوبہ سندھ میں حالت زیادہ خراب ہے اس لئے ضروری ہے یہاں ہنگامی بنیادوں پر تعلیمی پالیسیوں کو تبدیل اور آئی بی اے یا ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے ان اداروں کا احتساب کیا جائے۔
نصاب جدید دور کے مطابق کیا جائے ، اساتذہ کرام کو جدید دور سے روشناس کرایا جائے، تحقیق کی طرف طلبہ اور اساتذہ کو متوجہ کرنا ہو گا اور انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کی ٹریننگ اور ورکشاپس رکھی جائیں اور آئندہ میرٹ پر اساتذہ کرام کو رکھا جائے کیوں کہ نا اہل اور سفارشی افراد تعلیمی نظام کی تباہی کا بڑا سبب ہیں۔
یہ لوگ جو نہ اپنے پیشے سے سچے ہیں اور نہ ہماری آنے والی نسل کو اقبال کا شاہین بنا سکتے ہیں۔ اساتذہ کرام کو میرٹ کے مطابق معاوضہ دیا جائے،ان کی حاضری کو لازمی بنایا جائے اور ٹیوشن کلچر کو فروغ دینے کی بجائے ختم کیا جائے۔ بچوں کا کوئی قصور نہیں وہ تو اپنا مستقبل بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ عملی طور پر کچھ کر نا ہو گا اور اس فرسودہ سسٹم کو تبدیل کرنا ہو گا۔
سرکاری اسکول، کالجز اور یونیورسٹیز کو زیادہ سے زیادہ اس پر سوچنا ہو گا ورنہ حالات تبدیل نہیں ہوں گے اور جس طرح بنگلہ دیش، ہندوستان اور سری لنکا اور ایشیا کے دوسرے ممالک ہم سے کئی گنا آگے جا چکے ہیں، ہمارے نصیب میں افسوس کے علاوہ کچھ باقی نہ رہے گا۔ لیکن اب بھی زیادہ وقت نہیں گزرا ہے اور اگر وقت کی لگام کو تھام لیا تو ممکن ہے ہم بہت آگے چلے جائیں کیوں کہ ہمارے ہاں باصلاحیت افراد کی کمی نہیں ہے۔
ہمارے ہونہار اور ذہین طلبہ بیرونی ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔ حکومت سے التماس ہے کہ نئی نسل ہمارا مستقبل ہے صرف توجہ درکار ہے پھر اس کے اس قدر مثبت نتائج نکلیں گے کہ دوسرے ممالک کے طلبہ بھی پاکستان میں تعلیم حاصل کر فخر محسوس کریں گے۔
اب والدین پر حیرت ہوتی ہے کہ ایک وقت تھا یہ بچوں کو گھروں میں خود پڑھائی کراتے تھے اور ٹائم دیتے تھے اور ٹیوشن کے بارے میں بات کرتے ہوئے شرم محسوس کرتے تھے ۔ والدین کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا ورنہ بچوں کا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔ تحریر: عبدالوحید مہر۔ کراچی