امریکہ نے تائی وان کو پانچ ارب 85 کروڑ ڈالر مالیت کے ہتھیاروں کی فروخت کے ایک نئے منصوبے کا باضابطہ طور پر اعلان کر دیا ہے۔اوباما انتظامیہ نے کانگریس کو اس بارے میں مطلع کرتے ہوئے بتایا کہ منصوبے کے تحت تائی وان کے فضائی بیڑے میں شامل 145 ایف سولہ لڑاکا طیاروں کو جدید آلات اور ہتھیاروں سے لیس کیا جائے گا اور پائلٹوں کے تربیتی پروگرام میں بھی پانچ سال کی توسیع کی جائے گی۔امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان مارک ٹونر نے بدھ کو بتایا کہ اس منصوبے سے تائی وان کی اپنی فضائی حدود کا دفاع کرنے کی صلاحیت میں فوری طور پر نمایاں اضافہ ہو گا۔انھوں نے کہا کہ اس منصوبے کے بعد گزشتہ دو سالوں میں تائی وان کو امریکی ہتھیاروں کی فروخت کا حجم 12 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گا، جو تائی وان کی دفاعی صلاحیت بڑھانے کے سلسلے میں امریکی عزم کی واضح نشان دہی کرتا ہے۔تائی وان کی حکومت اور بعض امریکی قانون ساز اس سے بھی بڑے معاہدے کی حمایت کر رہے تھے جس میں 66 نئے ایف سولہ طیاروں کی فروخت شامل تھی۔ لیکن منگل کو ایک اعلی امریکی عہدے دار نے بتایا کہ موجودہ طیاروں کو جدید آلات اور ہتھیاروں سے لیس کرنے سے فضائیہ کی استعداد میں تقریبا اتنا ہی اضافہ ہو گا جتنا کہ نئے طیاروں کے حصول سے ہوتا۔چین تائی وان کو اپنا علاقہ قرار دیتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ہتھیاروں کی فروخت سے چین اور امریکہ کے تعلقات متاثر ہوں گے۔چینی وزارت خارجہ کے مطابق نائب وزیر ژانگ زیجن نے بیجنگ میں متعین امریکی سفیر گیری لاک کو طلب کر کے ان سے اس پیش رفت پر احتجاج کیا۔1979 میں منظور ہونے والے ایک قانون کے تحت امریکہ پر لازم ہے کہ وہ تائی وان کو ذاتی دفاع کے لیے ہتھیار مہیا کرے۔