تیرہ ستمبر کو کابل میں واقع امریکی سفارت خانے اور اس سے ملحقہ نیٹو کے دفتر پر طالبان کے حملے نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں حملہ کرکے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ اس حملے میں چھ افراد ہلاک ہوئے جب کہ 26 سے زائد زخمی ہوئے۔ دونوں طرف سے کئی گھنٹے تک فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا۔ اس حملے کے فورا بعد امریکی وزیر دفاع نے الزام لگایا کہ یہ حملہ حقانی نیٹ ورک کی جانب سے کیا گیا ہے، یہ نیٹ ورک شمالی وزیرستان میں قائم ہے اور وہیں سے امریکہ اور نیٹو کے فوجیوں کے خلاف حملہ کرتا رہتا ہے۔ امریکہ کے اس الزام کا جواب دیتے ہوئے حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج حقانی نے کہا کہ ہمارا قیام شمالی وزیرستان (پاکستان) میں نہیں ہے بلکہ ہم مشرقی افغانستان میں رہ رہے ہیں جہاں ہم پاکستان سے زیادہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ امریکی سفارت خانے پر یہ حملہ کس نے کیا تھا۔ چنانچہ اس حملے کے بعد امریکہ کے انسداد دہشت گردی سے متعلق امریکی صدر اوباما کے مشیر جان برینن نے ہاورڈ لا اسکول میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر پاکستان شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی نہیں کرتا تو امریکہ ازخود یکطرفہ طور پر یہ کارروائی کر ے گا تاکہ اس نیٹ ورک کا مکمل طور پر قلع قمع کیا جاسکے۔ اسی قسم کی بات جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائیک مولن نے بھی کی ہے اور کہا کہ پاکستان افغانستان میں حقانی نیٹ ورک کے ذریعے پراکسی وار بند کرے،اس کے نتائج ٹھیک نہیں ہوں گے۔ امریکہ کی ان چوٹی کے ذمہ دار افسران کی گفتگو سے بات یہ ظاہر ہو رہی ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں اب وہ گرمجوشی باقی نہیں رہی جو دوتین سال پہلے دیکھنے میں آتی تھی، نیز ایسا بھی محسوس ہو رہا ہے کہ امریکہ افغانستان میں اپنی واضح فوجی، سیاسی ناکامی کے بعد دل برداشتہ ہوکر شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف فوجی کارروائی کرسکتا ہے اور اگر ایسا عملی طور پر ہوگیا تو پاکستان کے لئے بے پناہ مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ حالانکہ پاکستان نے کئی مرتبہ کہا ہے کہ ان کا حقانی نیٹ ورک سے کوئی تعلق یا تعاون نہیں ہورہا ہے لیکن امریکہ پاکستان کی یہ بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ مزید براں جس طرح افغانستان کے سابق صدر برہان الدین کو قتل کیا گیا ہے، اس سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ طالبان گوریلا کارروائیوں کے ذریعے امریکہ کو افغانستان سے جلد از جلد نکل جانے پر مجبور کررہے ہیں، برہان الدین کا قتل ایک High Profile قتل ہے جس کی وجہ سے امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کو خاصا دھچکا پہنچے گا۔ واضح رہے کہ مرحوم برہان الدین طالبان، امریکہ اور کرزئی حکومت کے درمیان مذاکرات میں مصالحت کار کا کردار ادا کررہے تھے۔ حال ہی میں انہوں نے ایران کا دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے ایران کے صدر احمدی نژاد سے افغانستان کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا تھا اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے سے متعلق ان سے مشورہ بھی مانگا تھا۔ جس شخص نے برہان الدین کو قتل کیا تھا وہ کرزئی کی ایما اور اجازت سے سابق افغان صدر سے ملاقات کے لئے ان کی رہائش گاہ پہنچا تھا۔ اس نے دھماکہ خیز مادہ اپنی پگڑی میں چھپا رکھا تھا، وہ جیسے ہی ان سے بغل گیر ہوا، اس نے دھماکے سے خود کو اور برہان الدین کو اڑا دیا۔ امریکہ نے جہاں اس قتل کی شدید مذمت کی ہے، اس نے ایک بار پھر حقانی نیٹ ورک پر الزام لگایا ہے کہ برہان الدین کے قتل کی کارروائی بھی اس کے کسی آدمی نے کی ہے۔ اس طرح اسامہ بن لادن کے بعد حقانی نیٹ ورک امریکہ کے لئے ایک بھیانک خواب بنتا جارہا ہے۔ تاہم بعض باخبر افغان صحافیوں کا خیال ہے کہ اگر پاکستان نے شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کی تو اس کو وہاں کچھ بھی نہیں ملے گا، کیوں کہ امریکہ کے خلاف جنگ کا دائرہ افغانستان کے اندر ہی موجود ہے اور مسلسل پھیل رہا ہے۔ تاہم حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کا ایک دوسرے کے ساتھ گہرا اشتراک نظر آتا ہے۔ اس بات میں اس لئے بھی وزن معلوم ہوتا ہے کہ حقانی نیٹ ورک نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر افغان طالبان امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے لئے تیار ہوجاتے ہیں تو وہ بھی مذاکرات میں شامل ہوکر افغانستان میں پائیدار امن کے لئے اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ دراصل امریکہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف پاکستان کو فوجی کارروائی کرنے کا دھمکی آمیز مشورہ اور دبا اس لئے ڈال رہا ہے اس کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے کہ وہ حقانی نیٹ ورک کو موثر طور پر افغانستان میں امن مذاکرات میں شامل کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کو 2014 تک وہاں سے نکلنے میں آسانی پیدا ہوسکے اور غالبا پاکستان پر امریکی دبا میں اسی لئے پڑ رہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک پر اپنا اثر ورسوخ استعمال کرکے اس کو افغان طالبان کے ہمراہ مذاکرات کی میز پر لا سکے۔ دراصل افغانستان سے متعلق امریکہ کی پالیسیاں ابھی تک ناکام ہوئی ہیں۔ کرزئی حکومت کرپشن اور نااہلی کی وجہ سے افغان عوام کی نظروں میں بے توقیر ہوچکی ہے جبکہ امریکہ نے اب تک افغانستان میں کسی بھی علاقے میں مکمل طور پر امن قائم نہیں کیا ہے۔ طالبان کے روحانی مرکز قندھار میں صورتحال انتہائی غیر تسلی بخش ہے، اسی جگہ اب تک تین High Profile افراد کا قتل ہوچکا ہے جس میں کرزئی کے سوتیلے بھائی ولی کرزئی بھی شامل ہیں۔ ولی کرزئی کے قتل کی وجہ سے امریکہ کی ہلمند صوبے سمیت جنوبی افغانستان میں گرفت ڈھیلی پڑ چکی ہے اور ماضی میں جو کچھ کامیابیاں اس جگہ حاصل ہوئی تھیں وہ بھی پائیدار اور مستقل نظر نہیں آ رہیں۔ چنانچہ اس پس منظر میں امریکہ پاکستان کو دھمکی دے کر اس کو شمالی وزیرستان میں کارروائی کرنے کا مشورہ دے رہا ہے جب کہ پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف اشفاق پرویز کیانی نے اسپین میں امریکی وفود سے ملاقات کے بعد واضح طور پر کہا ہے کہ پاکستان اپنے قومی مفادات کی روشنی میں شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کرنے یا نہ رکنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ دراصل پاکستان، افغانستان کی موجودہ صورت حال میں کسی بھی جنگجو فریق کے ساتھ تعلقات میں غیر جانبدار رہنا چاہتا ہے، کیوں کہ ماضی میں اس نے سوویت یونین کے خلاف امریکہ کی پراکسی جنگ میں حصہ لے کر اپنے مفادات پر کاری ضرب لگائی تھی، نیز جب امریکہ نے پاکستان کی مدد سے سوویت یونین کو افغانستان سے نکل جانے پر مجبور کردیا تو امریکہ نے پاکستان اور خود افغانستان کو تنہا چھوڑ دیا تھا، طالبان کا وجود دراصل اس خطے میں امریکہ کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے، جس کا خمیازہ امریکہ اور پاکستان دونوں اٹھارہے ہیں۔