یمن کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ امریکی نژاد انتہا پسند مذہبی رہنما انور ال العولقی کو ہلاک کردیا گیا ہے۔ وزارت کا کہنا ہے کہ ملک میں القاعدہ سے منسلک قوتوں سے تعلق رکھنے والا العولقی دیگر مشتبہ عسکریت پسندوں کے ساتھ مارا گیا۔تاہم اس کی ہلاکت سے متعلق مزید تفصیلات جاری نہیں کی گئی ہیں۔ لیکن قبائلی ذرائع اور سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ امریکی نژاد انتہا پسند جمعہ کی صبح ملک کے مشرقی حصے میں القاعدہ کے ایک قافلے پر فضائی حملے میں ہلاک ہوا۔یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ یہ حملہ کس نے کیا تھا۔العولقی امریکہ اور یمن دونوں کو ہی مطلوب تھا اور اس پر دہشت گردانہ کارروائیوں بمشول 2009 میں امریکی جہاز پر حملے کی کوششوں میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔باور کیا جاتا ہے کہ العولقی ٹیکسس میں امریکی فوجی اڈے پرفائرنگ کرنے والے مشتبہ شخص کو مشورہ دیتا رہا ہے اور گزشتہ سال یمن میں ایک فرانسیسی باشندے کے قتل میں بھی اس کا ہاتھ ہے۔امریکی حکام اس انتہا پسند مذہبی رہنما کا تعلق جزیرہ نما عرب میں یمنی القاعدہ سے جوڑتے ہیں۔القاعدہ رہنما کی کاروائیوں پر ایک نظرجمعہ کو یمن میں کیے گئے ایک امریکی فضائی حملے میں ہلاک ہونے والے امریکی نژاد شدت پسند رہنما انور العوالقی القاعدہ کی یمنی شاخ کا سربراہ تھا اور اس کا شمار عالمی دہشت گرد تنظیم کے نمایاں رہنمائوں اور مبلغین میں کیا جاتا تھا ۔العوالقی امریکہ کو دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنانے کی کوششوں میں خاصا سرگرم تھا اور اس کی یہی سرگرمی امریکی حملے میں اس کی ہلاکت کا سبب بنی۔ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی رواں برس مئی میں امریکی کمانڈوز کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد العوالقی مزید ابھر کر سامنے آیا تھا۔العوالقی ‘القاعدہ’ کی یمنی شاخ کا سربراہ تھا جو ‘القاعدہ اِن عریبین پینی سولا’ یا ‘جزیرہ نما عرب میں القاعدہ’ کے نام سے سرگرم ہے۔ العوالقی پر اس سے قبل مئی میں یمن ہی کے ایک علاقے میں ڈرون حملہ بھی کیا گیا تھا جس میں دو مبینہ شدت پسند مارے گئے تھے۔ وہ گزشتہ برس کیے گئے ایک فضائی حملہ میں بھی بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا تھا جس میں 30 دیگر افراد ہلاک ہوگئے تھے۔1971 میں امریکی ریاست ‘نیو میکسیکو’ میں مقیم ایک ایمنی خاندان کے ہاں جنم لینے والے العوالقی کو انگریزی اور عربی پر یکساں عبور حاصل تھا۔ القاعدہ سے منسلک ہونے سے قبل وہ امریکہ میں کئی مساجد کا امام بھی رہ چکا تھا جن میں مغربی امریکی شہر سان ڈیاگو کا وہ مسلم مرکز بھی شامل تھا جہاں اکثر و بیشتر آنے والے دو افراد بعد ازاں اس گروہ میں شامل ہوگئے تھے جس نے امریکہ کو 11 ستمبر 2001 کے حملوں کا نشانہ بنایا تھا۔یمن منتقل ہونے کے بعد العوالقی نے انٹرنیٹ کے ذریعے شدت پسندی کی تبلیغ شروع کردی تھی اور اس کے بیانات کی ریکارڈنگ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے قدامت پسند افراد میں خاصی مقبول رہی۔امریکہ میں پیدائش اور یہاں اپنی زندگی کا بڑا حصہ گزارنے کے باوجود العوالقی امریکی پالیسیوں کا ایک بڑا ناقد تھا اور اس پر شدت پسندوں کو امریکی مفادات کے خلاف پرتشدد کاروائیوں پر اکسانے کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے۔نومبر 2010 میں کی گئی اپنی ایک تقریر میں العوالقی نے اپنے پیروکاروں سے کہا تھا کہ انہیں کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ امریکیوں کو قتل کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے اور ایسا کرنے سے قبل انہیں کسی سے اس بارے میں پوچھنے کی ضرورت بھی نہیں۔القاعدہ رہنما کے بقول امریکیوں سے رابطے رکھنے والے مسلمانوں کو بھی “اِدھر یا ادھر” جیسی صورتِ حال درپیش ہے جس کا انہیں فیصلہ کرنا ہوگا۔العوالقی کئی دہشت گرد حملوں میں اپنے مبینہ کردار کے باعث امریکہ اور یمن، دونوں ممالک کو انتہائی مطلوب تھا۔امریکی حکام کو یقین ہے کہ 2009 میں کرسمس کے موقع پر امریکی شہر ڈیٹرائٹ جانے والے جہاز کو دورانِ پرواز بم سے اڑانے کی کوشش کرنے والے نائجیرین نوجوان عمر فاروق عبدالمطلب کے بھی العوالقی سے رابطے تھے۔القاعدہ رہنما نے 2009 میں ٹیکساس کے ایک فوجی مرکز پر فائرنگ کرکے 13 افراد کو موت کی گھاٹ اتارنے والے امریکی فوجی ماہرِ نفسیات میجر ندال ملک حسن کو بھی اس کاروائی پر اکسانے اور اس کی رہنمائی کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔یمنی حکام کو بھی العوالقی یمن میں مصروفِ کار ایک فرانسیسی آئل کمپنی کے ملازم کے قتل کی واردارت سمیت کئی دیگر الزامات میں مطلوب تھا۔