دفتر خارجہ کی ترجمان تہمینہ جنجوعہ نے گفتگو کرتے ہوئے ان افغان دعوؤں کی تردید کی ہے جن میں کہا گیا ہے کہ حکومت پاکستان کو وہ شواہد فراہم کر دیئے گئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ سابق صدر برہان الدین کے قتل کی سازش کوئٹہ کے مضافات میں تیار کی گئی تھی۔ تہمینہ جنجوعہ نے کہا کہ افغان اعلی امن کونسل کے سربراہ کے قتل کا سانحہ افغانستان میں امن و مصالحت کی کوششوں کے لیے ایک دھچکا تھا اور دہشت گردی کے اس واقعہ کی پاکستان نے پرزور الفاظ میں مذمت کی تھی۔ دفتر خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ پروفیسر ربانی کے خاندان اور افغان عوام سے اظہار تعزیت کے لیے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے خصوصی طور پر کابل کا دورہ بھی کیا جہاں انھوں صدر حامد کرزئی سے اس قتل کی تحقیقات میں معاونت کی پیش کش بھی کی جو بدستور برقرار ہے۔ دریں اثنا ملتان میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے خود وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی افغان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا برہان الدین ربانی پاکستان کے دوست تھے اور وہ ان کے قتل کی شدید مذمت کرتے ہیں۔میں خود صدر کرزئی سے پاس گیا تھا اور ان سے پروفیسر ربانی کی تعزیت کی تھی۔ ان کو اگر کسی قسم انٹیلی جنس چاہیے وزارت داخلہ کی مدد معاونت چاہیے ہوگی تو ہم انھیں فراہم کریں گے، ہم ان کا ساتھ دیں گے، مگر ہم پر وہ شک نہیں کرسکتے۔اس سے قبل ہفتہ کو کابل میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے افغان نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی کے ترجمان نے دعوی کیا تھا کہ برہان الدین ربانی کے قتل کی سازش کوئٹہ کے مضافات میں تیار کی گئی تھی اور اس کے شواہد کابل میں پاکستانی سفارت خانے کے حوالے کر دیئے گئے ہیں۔ برہان الدین ربانی کو 20 ستمبر کو کابل میں ان کی رہائش گاہ پر خودکش حملے میں ہلاک کیا گیا تھا اورافغان حکام کا کہنا ہے کہ ان سے ملاقات کے لیے آنے والے حملہ آور نے بارودی مواد سر پر رکھی پگڑی میں چھپا رکھا تھا۔