یہ خبر نہ صرف سندھ کے لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے بلکہ وفاق سمیت سارے پاکستان اور اِس کے اٹھارہ کروڑ عوام کے لئے بھی باعث مسرت ہے کہ ایم کیوایم کی دوبارہ حکومت میں شمولیت اختیار کرنے سے ملک کی بہت سی نادیدہ ایسی طاقتیں جو حکومت کو گرانے اور اپنا اقتدار حاصل کرنے کے لئے کمربستہ دکھائی دیتی ہیں اِن کے ارمانوں اور خواہشات پر اوس پڑگئی ہوگی اِس حوالے سے عرض یہ ہے کے حکومت نے متحدہ کے تحفظات کو دورکرنے کے بعد ایم کیو ایم کو اپنے ساتھ ایک مرتبہ پھر ملالیاہے جو کہ ملک کے موجودہ اور بین الاقوامی حالات ِ حاضرہ کے تناظر میں ایک خوش آئنداور حوصلہ افزامر ہے کیوں کہ ایک طرف حکومت پر امریکی دباو ہے تو دوسری جانب اِن حالات میں اپوزیشن کی جانب سے بجلی کے بحران اور برقی رو کی لوڈشیڈنگ پر سیاست چمکانے اور ہاے بجلی ہائے بجلی جیسے نعرے کا سلسلہ بھی جاری ہے ایسے میں اندورنی اور بیرونی دباو اور اپنے اوپر پے درپے ہونے والے تنقیدوں کے واروں کی وجہ سے حکومتی کمر نہ صرف کمزور ہوچکی تھی بلکہ حکومت اپنی کمر کی کمزروی کی وجہ سے لاغربھی ہوگئی تھی اگر اِن حالات میں متحدہ کو حکومت اپنے ساتھ نہ ملاتی تو پھر یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی تھی کہ لوڈشیڈنگ کوبنیاد بناکر اپوزیشن جماعتوںکی جانب سے ملک کے طول ارض میں اگلے ہونے والے دوچار پرتشدد مظاہروں میں حکومت کا گرنا لازمی ہو گیا تھا۔ مگر وہ تو اللہ بھلاکرے ہمارے فہم وفراست اور افہام وتفہیم سے لبریز اور سرشار صدرِمحترم جناب عزت مآب سیدآصف علی زرداری کا جنہوں نے اپنی حکومت پر برے دن آنے اور اِسے اپنے ہاتھوں سے جانے سے پہلے ہی متحدہ کو اپنے ساتھ دوبارہ ملاکر اپنی کمزرو ہوتی کمر کو مضبوط کرلیاہے بلکہ اِس موقع پر ہم تو یہ کہیں گے کہ اب حکومت اپناسینہ تان کر اور گردن اٹھاکر حزبِ اختلاف سے مقابلہ کرنے اور اِسے نکوں چنے چبوانے کے لئے بھی میدان سیاست میں اترجائے گی تو وہیں حکومت اپنے اِس اچھے عمل سے دوسری جانب ان نادیدہ قوتوں کو یہ بھی باور کرادے گی جو اقتدار کے حصول کے خاطر حکومت کو گرانے کا کوئی موقع اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیتیںیہ حقیقت ہے کہ حکومت نے متحدہ کو ایک ایسے وقت میں اپنا اتحادی بنالیاہے جب یہ بجلی کے آئے ہوئے بحران اور ملک گیر جاری رہنے والے پر تشدد مظاہروںکی وجہ سے بندگلی میں اتنہارہ گئی تھی تو دوسری طرف اِن پرتشددمظاہروں میں مسلم لیگ ن اور دیگر دوسری سیاسی جماعتوں کے علاوہ ایسی جماعتیں بھی شامل ہیں جن کی ایوانوں میں کوئی نمائندگی بھی نہیں ہے مگر اِس کے باوجود بھی یہ ن لیگ کے ساتھ مل کر اپنے اپنے سیاسی قد اونچاکرنے اور اقتدار کے حصول کے لئے وہ سب کچھ کرگزرنے کو تیار ہیں جن کا نہ تو کوئی معاشرہ اجازت دیتاہے اور نہ ہی کوئی قانون۔ جیساگزشتہ دنوں پنجاب کے اکثر علاقوںمیں نجلی کی لوڈشیڈنگ اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوںمیں ہونے والے اضافے کے خلاف ہونے والے پرتشدد احتجاجی مظاہروں کے دوران آگ و خون اور سرکاری اورنجی املاک کو نقصان پہنچانے کا کھیل کھیلاگیا جس کے پیچھے نواز شریف اور اِن کی جماعت کا بھرپور ہاتھ تھامگر اِن تمام باتوں اور پرتشدد واقعات کے پیش آنے کے باوجود بھی ہمارے ملک کی کچھ نادیدہ سیاسی قوتیں ایسی بھی ہیںجو موجودہ حکومت کو تنقیدکا نشانہ بنانے کے بہانے تلاش کرتی ہیں اور حکومت کی کوئی کمزروی ہاتھ آتے ہی اِس پرتنقیدوں کی بچھاڑ کرنے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرتیں جن میں پاکستان مسلم لیگ ن سرِفہرست ہے۔ اگرچہ ایک ایسے وقت اور حالات میں حکومت نے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے تحفظات کو فوری طور پر دور کرکے اِسے ایک بار پھر اپنا اتحادی بنالیاجب حکومت کو دور تک اپنا مستقبل تاریک نظرآتاتھا ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کا متحدہ کو دوبارہ اپنا اتحادی بنانے کا یہ فیصلہ ملکی سیاست میں ایک خوش آئندہ فیصلہ ثابت ہوگاجس کے ثمرات آئندہ دنوں میں سامنے آئیں گے جبکہ حکومت اور بالخصوص صدرزرداری نے نواز شریف کے اِس کہئے کو ثابت ہوگیازرداری جمہوریت کے لئے خطرہ ہیں یکسرمسترد کر دیا ہے اور قوم کو بتا دیا ہے کہ جمہوریت کے لئے اصل خطرہ زرداری نہیں بلکہ نوازشریف اور اِن کی پارٹی ہے۔ بہر کیف ! ملک میں بڑھتی ہوئی بجلی کی لوڈشیڈنگ اور امریکی دباو کے خاتمے کے لئے اب حکومت اور متحدہ قومی موومنٹ کو باہم متحدہ اور منظم ہوکر ایسادیرپالائحہ عمل مرتب کرنا ہوگا جس سے ملک میں بجلی کا بحران ختم ہوسکے اور ملک میں ترقی اور خوشحالی کا دور شروع ہو بالخصوص ایم کیو ایم کو شہرقائد کراچی میں طویل ہونے والی بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے سمیت امن وامان کے قیام کے لئے اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار ضرور لاناہوگا تاکہ شہرکراچی کی بندہوتی صنعتوں کا پہیہ چل سکے۔ جبکہ صدر آصف علی زرداری نے ایوانِ صدر میں بے نظیر ایمپلائزاسٹاک آپشن اسکیم کے تحت پاکستان پیٹرولیم لمیٹیڈ پی پی ایل اور کوٹ ادوپاور کمپنی کیپکو کے ملازمین میں اسٹاک شیئرز سرٹیفکیٹس تقسیم کرنے کی تقریب سیخطاب کرتے ہوئے کہاکہ90کی دہائی میں شہیدبے نظیر بھٹونے اپنی قوم کی آئندہ نسلوں کی ضروریات کو مدنظررکھتے ہوئے اپنے دورِ حکومت میں توانائی سے متعلق دور رس پالیسیاں متعارف کرائیں لیکن نہ جانے کیوں اِن منصوبوں کوترک کردیاگیانہ یہ بلکہ ایک وقت ایسا بھی آیاکہ جب شہید بے نظیر بھٹو نے بحیثیت اپوزیشن لیڈر کے ایوان کے فلور پر خطاب اپنے ایک خطاب کے دوران برسرِ اقتدار جماعت سے مخاطب ہوکر کہاکہ اِن کی مرتب کردہ پالیسی اورمنصوبے کو چلنے دیاجائے اگر یہ ملک کی ضرورتوں کو پوراکرنے کے لئے زیادہ بجلی پیداکررہے ہیں تو اِن کے اِن منصوبو ں کو ہرگزبند نہ کیاجائے بلکہ ملک میں صنعت کے میدان میں ترقی کی جائے اور فاضل بجلی اپنے ہمسایہ ملک بھارت کو برآمد کردی جائے کیونکہ مجھے اندازہ ہو رہا ہے کہ آئندہ دنوں، ہفتوں ، ماہ اور سالوں میں ہمارے ملک کو ہر قدم پر بجلی کی ضرورت شدت سے محسوس ہو گی۔ اب اِس بات پر قوم کو ہر حال میں متفق ہوجانا چاہئے کہ اگر واقعی بینظیر بھٹو شہید کے منصوبوں پر حقیقی معنوں میں ایک رتی برابر بھی عمل ہو رہا ہوتا تو میرے ، آپ کے اور صدر زرداری سمیت مسٹر نواز شریف کے اِس ملکِ پاکستان میں یقینی طور پر بجلی کی لوڈشیڈنگ کا یہ درناک عذاب جو ساری پاکستانی قوم پچھلے کئی سالوں سے جھیل رہی ہے اِس سے صحیح معنوں میں نجات حاصل کرچکی ہوتی اب کوئی اِس کا یقین کرے یا ناں کرے مگر میراتویہ یقین ہے کہ ایک ایساطویل مدت منصوبہ جو شہید رانی بینظیر بھٹوصاحبہ کا مرتب کردہ تھااگراِس پر آج کام ہوجاری رہتاتو ملک میں کم ازکم بجلی کا تو کوئی بحران پیدانہ ہوتا مگر اِس موقع پر کلیجے پر ہاتھ رکھ کر انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہناپڑرہاہے کہ اِن کے حاسدوںنے اپنی سیاسی چالبازیوں نے اِن کا یہ منفرداور ملک کو بجلی اور توانائی کے شعبے میں جدید دور سے ہم آہنگ کرنے والے اِس منصوبے اور پالیسیوں کو صرف فائلوں تک ہی محدود رکھ کر نہ صرف ایک عظیم لیڈر کی حق تلفی کی بلکہ اِن کے منصوبوں اور پالیسیوں کو سرخ فیتوں میں جکڑ کر ملک کو بھی بجلی اور توانائی کے شعبوں میں ایسے سنگین مسائل سے دوچار کردیاہے جس کا خمیازہ آج ساری قوم کراچی سے لیکر آزاد کشمیر اور خیبر پختونخواہ میں بھی طویل برقی رو کی لوڈشیڈنگ کے خلاف ملک گیر پرتشدد مظاہرے کرکے بھگتنا پڑ رہا ہے۔ مگر اِس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ساڑھے تین سال برسراقتدار رہنے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی جس کا نعرہ عوام کے لئے ترجیحی بنیادوں پر روٹی ، کپڑااور مکان کا تھا افسو س کی بات تو یہ ہے کہ یہ اپنے قیام سے لے کرآج تک مسائل کے گرداب سے ہی نہیں نکل پائی ہے یوں یہ بیچاری عوام کی خدمت کے سارے منصوبے اپنے سینے میں دفن کئے دن بدن اپنے اختتام کی جانب کھستے جارہی ہے مگر اِس کے تعاقب میں لگے اِس کے حاسد اور اِس کے دشمن اِس کو ایک پل بھی امورِ مملکت چلانے کا موقع دینے کو تیار نہیں ہیں موجودہ حالات میں اِس کی پریشانیوں کو دیکھ کر ایسا لگتاہے کہ یہ معصوم اور ڈری سہمی حکومت اپنے پرائے کی سازشوں کا شکار رہ کر روز افزوں ملک میں مہنگائی کا طوفان برپاکرنے کے سواعوام کو ریلیف دینے کے منصوبے اپنے سینے میں لئے فناہوجائے گی اور شائد اِس کے بعد پھر کبھی اِسے اقتدار میں آنے کا کوئی موقع ہاتھ آسکے۔ مگرپھر اِن تمام باتوں کے باوجود بھی ہمیںیہ امید ضرور ہے کہ ہمارے صدر سیدآصف علی زرداری اور وزیراعظم سیدیوسف رضاگیلانی اپنی دانش سے اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر اپنی حکومت کے اختتام سے قبل ملک کوتوانائی اور بجلی کے بحرانوں سے نجات دلانے کے لئے ایساکوئی نہ کوئی کارنامہ ضرور انجام دے جائیں گے جس میںملک میں بجلی کی فراونی ہوگی اور عوام کا بجلی سے متعلق پایاجانے والا بجلی چوری، کے پی ایس کنڈاپاور سیلائی سسٹم میڑ بندکرنے اور میٹر پیچھے کرنے سمیت اور دوسرے ناجائز طریقے استعمال کرنے کے سارے نظریئے دم توڑ جائیں گے اور جیساکہ ہم نے یہ بھی تصور کر رکھا ہے کہ ہم مسلمان ہیں، ہر لمحہ ہے دعوی اپنا اِک خدا، ایک نبی ایک ہے کعبہ اپناٹیکس سرکار کو دینا نہیں عادت اپنی چوری بجلی کی یہ برسوں سے ہے شیوہ اپنا۔ تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم