اِس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ ادوار میں ہمارے جتنے بھی حکمران اپنی ناقص اور فرسودہ منصوبہ بندیوں کی گٹھریوں کا بوجھ اٹھائے ہم پرجب تک مسلط رہے انہوں نے ملک میں بجلی و توانائی کے شعبے کو استحکام بخشنے کے لئے ایک رتی کا بھی کام نہیں کیا ہم سمجھتے ہیں کہ اگرکسی نے بھی اِس جانب ذرابھی توجہ دی ہوتی تو ہمیں یقین ہے کہ ہمارا ملک اِس طرح بجلی اورتوانا ئی کے شعبے میں بجلی جیسی اِس بنیادی ضرورت جس پر ملکوں کی ترقی اور خوشحالی کا دارومدار ہوتا ہے یہ اِس کے بحران سے قطعا ایسا دوچار نہ ہوتا جیسا کہ یہ آج ہو گیا ہے۔ اگرچہ ایک جانب یہ حقیقت قابل افسوس ہے تو دوسری طرف کسی حد تک حوصلہ افزابھی کہی جاسکتی ہے کہ اپنی مدت کے اختتام کے جانب بڑھتی ہوئی موجودہ عوامی اور جمہوری حکومت کے صدر ِمحترم عزت مآب جناب آصف علی زرداری نے ملک میں بجلی کے بڑھتے ہوئے بحران اور اِس سے سیاسی، معاشی،اقتصادی اور اخلاقی طور پر پیداہونے والی سنگین ہوتی صورت ِحال پر اپنی حقِ حکمرانی کے ساڑھے تین سال گزار دینے کے بعد ملک سے بجلی کے بحران کے خاتمے کے لئے انتہائی سنجیدگی سے اقدامات کرنے کے لئے اپنی نوعیت کاایک اہم ترین اجلاس بلایا جو گزشتہ دنوں صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم سیدیوسف رضاگیلانی کی زیرصدرات ایوان ِ صدر اسلام آباد میں منعقد ہوا جس میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی سینئر قیادت نے بھی شرکت کی یہاں ہم اپنے قارئین کو یہ بتاتے چلیں کہ اِس اجلاس کی سب سے زیادہ جو خاص بات رہی وہ یہ تھی کہ اِس میں پچھلے کئی سالوں سے ملک میں پیداہونے والے بجلی کے بحران اور اِس سے ملکی معیشت ، سیاست اور عوام پر پڑنے والی منفی اثرات سمیت اِن سے پیداہونے والے دیگر ایسے عوامل جن کی وجہ سے حکومت اور عوا م میں دوریاں جنم لے رہی ہیں اِن کابھی جائزہ لیاگیااور بجلی کی سپلائی کو بہتر بنانے کے لئے فوری اقدامات کئے جانے کو حتمی شکل دینے کے لئے بھی صاف ستھرے افراد پر مشتمل کمیٹیاں بنانے کا پروگرام بھی مرتب کیاگیااور اِس کے ساتھ ہی ملک کو درپیش معاشی صورت حال سمیت امن وامان اور اتحادی جماعتوں کے ساتھ تعلقات اور ملک کی مجموعی سیاسی صورتِ حال کا بھی بغور جائزہ لیاگیا اور کئی ایسے اقدامات کرنے کے بھی منصوبے بنائے گئے کہ جس کے فوری طورپر عملدرآمد سے ملک میں معاشی وسیاسی طور پر استحکام پیدا ہو جائے گا۔ جبکہ اِس موقع پر صدر مملکت آصف علی زرداری نے ملک میں بجلی کے بحران کے باعث اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ہونے والے پرتشدت احتجاجوں اور ہڑتالوں کے نتیجے میں نجی و سرکاری املاک کو پہنچنے والے نقصانات پر اپنے غم و غصے کا اظہارکیااور بجلی کے بحران کو جواز بناکر اپنی سیاست چمکانے والی حزب اختلاف کی جماعتوں کے علاوہ ان عناصر کو بھی جو حکومت مخالف ہیں اِنہیںسختی سے متنبہ کرتے ہوئے کہاکہ بجلی کے بحران پر کسی کو طاقت کی سیاست نہیں کرنے دیں گے ،اور ملک میں آئے ہوئے بجلی کے بحران کو جواز بنا کرکسی کو ہمارے اِس جمہوری نظام کو پٹری سے اتارنے کی غیرجمہوری کوشش کسی بھی صورت میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے انہوں نے ملک کی جمہوری قوتوں کو مخاطب کرکے کہاکہ وہ جمہوری قوتیںجو ملک کو بجلی اور توانائی کے بحرانوں سمیت دیگر دوسرے مسائل سے نجات دلانے کے لئے کوشاں رہتی ہیںاگر یہ متحد ہوجائیں توہم ملک میں توانائی کے مسائل پر مستقل بنیادوں پر قابو اور بجلی کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔اور اِس کے ساتھ ہی اجلاس میں وفاقی وزیر پانی وبجلی نے ملک سے بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لئے کئے گئے اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے بتایاکہ اِن کے اب تک کئے گئے اقدامات سے ملک میں بجلی کا بحران ختم کرنے اور بلاتعطل برقی رو کی سپلائی جاری رکھنے کے لئے حکومت نے پی ایس او کوواجبات کی ادائیگی کرتے ہوئے10ارب روپے کی رقم فوری طور پر جاری کردی جس کے بعد کراچی کے علاوہ ملک بھرمیں بجلی کی اعلانیہ اور غیراعلانیہ طویل اور قلیل ہونے والی بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم ہوگئی ہے اور اِس سے ملک میں سیاسی، معاشی و اقتصادی اور اخلاقی حوالوں سے بھی بہتری آرہی ہے جس سے حکومت کو سکھ کا سانس نصیب ہوا ہے۔ ابھی حکومت اپنے کئے گئے اِن اقدامات سے مطمئن تھی اور دوسر ی جانب عوام بھی اِس خوش فہمی میں مبتلا حکومتی اقدامات کی تعریفیں کرتے نہیں تھکے تھے کہ حکومت نے پی ایس او کو واجبات کی فوری ادائیگی کرکے ملک سے بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کرکے عوام کے ایک درینہ مسلہ سے چھٹکارہ دلانے میں بڑااہم کرادار اداکیاہے جس سے ملک میں لوڈشیڈنگ ختم ہوگئی ہے کہ پچھلے ہی دنوں حکومتی اقدامات پر خوشی سے بھنگڑاڈالتے عوام پر یہ خبرا یٹم بم بن کر گر گئی جس کے مطابق ملک بھر میں لوڈشیڈنگ دوبارہ شروع ہونے کا امکان ہے کیوں کہ پیپکو کی جانب سے پی ایس او کو دی جانے والی دس ارب روپے کی رقم جو صرف اتنے ہی دن کے لئے تھی جتنے دن ملک میں لوڈشیڈنگ نہیں ہوئی ہے ختم ہوگئی ہے اور اب ایک مرتبہ پھر حسبِ عادت تیل کی فراہمی متاثر ہونے سے ملک میں پہلے سے زیاد شدد کے ساتھ بجلی کی لوڈشیڈنگ شروع ہونے کا قوی امکان ہے اِس بات کا خدشتہ ظاہر کرتے ہوئے پاکستان اسٹیٹ آئل کے ترجمان نے بتایاکہ پی ایس او کا سرکلرڈیٹ 143ارب روپے ہوچکاہے جبکہ پی ایس اوکے ذمہ مقامی اور بین الاقوامی آئل کمپنیوں کو 155ارب روپے کی فوری ادائیگی بھی کرنی باقی ہے ترجمان نے کہاکہ حبکو،پیپکواور وپڈا بھی پی ایس او کے 120ارب روپے کے نادہندہ ہیںاور ایسے میں حکومت یہ سمجھتی ہے کہ یہ دس ارب روپے دے کر ملک سے ہمیشہ کے لئے بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرالے گی تو یہ اِس کی خوش فہمی ہے۔اِس کے بعد عوام کو مایوسی ہوئی ہے اور عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ کیا یہی کسی جمہوری اور عوامی حکومت کا کارنامہ ہوتاہے کہ وہ عوام کے بنیادی مسائل کو طویل مدت کے لئے حل کرنے کے بجائے انتہائی قلیل وقت کے لئے اپنے سیاسی مخالفین ک ٹھنڈاکرنے کے لئے کسی مسئلے کوحل کرنے کے اقدامات کرکے اپنی نااہلی اور ناکامی کا ازالہ کرتی پھرے تو یہ اِس کی بھول ہے۔اِس کے علاوہ عوام پریہ خبر بھی پہاڑبن کرگری ہے کہ جس کے مطابق وفاقی سیکریٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود نے دوٹوک الفاظ میں کہاہے کہبجلی پر سبسڈی مکمل طور پر ختم کردی گئی ہے کیوںکہ عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے تعاون سے پاور سیکٹرز کو345ارب روپے کی پہلے ہی سبسڈی دی جاچکی ہے جبکہ بجلی کے صارفین نے 130ارب روپے واجبات اداکرنے ہیںاور فروری میں آئی ایم ایف کواسٹینڈبائی پروگرام کی 1.2ارب ڈالر اور آئندہ سال 3.5ارب ڈالرزکی ادائیگیاںبھی کرنی ہیں۔ بہرحال !ملک میں بجلی کے بحران پر قابو پانے اور توانائی سیکٹرز میں بہتری لانے والے مندرجہ بالا اِس قسم کے حکومتی حربے اور ایسی تمام باتیں اور حکومتی اقداامات اپنی جگہہ ضرور بجلی کے بحران کو کم کرنے اور اِسے ختم کرنے سمیت اِس میں کچھ بہتری لانے کے لئے آٹے میں نمک کے برابر کارآمد ہوںگے مگردر حقیقت اِس کے کہ ایسے اقداامات جنکا سارابوجھ براہ راست عوام کے کاندھوں پر پڑے اِنہیں عوامی حلقے مسترد کرتے ہیں اور حکومت سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت اپنے کسی ایسے ظالمانہ اور بے رحمانہ اقدام سے عوام کو محفوظ رکھے جس سے عوام پر مہنگائی کا مزیدبوجھ پڑے اور وہ جیتے جی زندہ درگور ہوجائے جیسے حکومت نے بجلی پر سبسڈی ختم کرنے کا اعلان کیاہے جسے بجلی کے گھریلوصارفین اپنے لئے حکومت کا ایک ایساظلم قرار دے رہے ہیں جس کا ازالہ نہیں کیاجاسکتاہے۔باوجود اِس کے کہ حکومت موجودہ توانائی سیکٹرزمیں سرمایہ کاری کرے اور اِس میں پیداواری صلاحیت بڑھانے کے اقدامات کرے تو ملک میں بجلی کا بحران ختم ہوسکتاہے ورنہ وفاق کے زیرانتظام چلنے والے اداروں میں ہفتے میں دودن چھٹی کرنے جیسے اقدام یا منصوبے سے ملک میں بجلی کا بحران فوری طورپر ختم تو ہوسکتاہے مگر اِس کا مستقبل حل ہفتے میں دوچھٹیاں ہرگزنہیں ہوسکتی ہیں جب تک حکومت ملک کے اندر بجلی پیداکرنے والے اپنے اور نجی اداروں کی پیداواری صلاحیت بڑھانے اور بیرونی ممالک کواپنے یہاں اِس شعبے میں سرمایہ کاری کرنے کے بہتر مواقع مہیاکرے تواِس سے ممکن ہے کہ ملک سے بجلی اور توانائی کا موجودہ سنگین ہوتابحران ختم ہوسکے۔اور ویسے بھی موجود ہ حکومت نے ملک سے بجلی کے بحران کو ختم کرنے یااِس کو قابو پانے کے لئے اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں وفاق کے زیر اثر اداروں میں دوچھٹیاں کرنے اور اِنہیں کچھ عرصہ بعد ختم کرنے اوربھاری کرائے پر بیرون ملک سے رینٹل پاور پلانٹ منگوانے(جوبغیراستعمال میں آئے کھڑاہے)جیسے نظرآنے والے اقدامات کے سواکیاہی کیاہے جواب اِس نے بجلی پر سبسڈی ختم کرنے اور بجلی نہ ہونے پر بھی اِس کے ٹیرف میں اندھادھند اضافہ کرنے والی پالیسی کو اپنا نصب العین بنارکھاہے اوراب اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ملک میں بجلی کے بحران پر قابوپانے کے لئے حکومت کی جانب سے ہر قسم کے حربوں کے استعمال کے باوجود بھی ملک میں بجلی کا بحران دن بدن بڑھتاہی جارہاہے اور حکومتی کارکردگی صفر ہوتی جارہی ہے مگر حکومت ہے کہ وہ بجلی کے شعبے میں عملی طور پر ایسے اقدامات کرنے سے قاصر نظر آرہی ہے جن کے فوری طورپر کرنے سے ملک میں بجلی کا موجودہ بحران ختم نہیں تو کم ازکم اِسے قابومیں ضرورکیاجاسکے گا جس کے لئے لازمی ہے کہ حکومت حقیقی معنوں میں بجلی کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے لئے اِس شعبے میں زیادہ سے زیادہ نہ صرف خود سرمایہ کاری کرے بلکہ عالمی برادری کو بھی اپنے یہاں اِس شعبے میں سرمایہ کاری کرنے کی اپیل کرے۔ جبکہ دوسری جانب ملکی اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں سے ہمیںیہ بھی معلوم ہواہے کہ وفاقی وزارت پانی و بجلی نے بجلی چوروں کو قید وجرمانے کی سخت ترین سزائیں دینے کا بھی اپنااصولی فیصلہ کرلیاہے جو ملکی تاریخ میں یہ عوامی اور جمہوری حکومت پہلی بار بجلی چوروں کو جیل میں ڈالنے جارہی ہے جس کے لئے اِس نے چاروں صوبائی حکومتوں کو ترنت مراسلے بھی بھجوادیئے ہیں اِس سے متعلق ہماراخیال یہ ہے کہ اگر اِس پر صیحح معنوں میں تمام صوبائی حکومتوں نے باہمی رضامندی سے کام کرناشروع کردیاتو یہ اِس حکومت کا ایک عظیم اور قابلِ تعریف کارنامہ ہوگا جس سے یقینا بجلی چوروں کا منہ کالااور حکومت کا بو ل بالا ہوگا یہاںہم یہ سمجھتے ہیں کہ اب چاروں صوبائی حکومتوں کو وفاقی حکومت کے اِس اقدام پر ہر حالت میں لبیک کہناہوگا اور اپنی اپنی تجاویز 18اکتوبر سے قبل وفاقی وزارت پانی و بجلی کو ضرور روانہ کردینی چاہئے ۔یہاں ہم اپنے قارئین کو بتاتے چلیں کہ ہم وفاقی وزارت پانی بجلی کے اِس مراسلے کی حمایت کس لئے کررہے ہیں تو عرض یہ ہے اِس نے ملک کی چاروں صوبائی حکومت کو جو مراسلہ ارسال کیاہے اِس میں یہ کہاگیاہے کہ یہ فوری طور پر اپنی تجاویز دیں کہ بجلی چوری کرنے والے گھریلو صارفین، تجارتی صارفین ، زرعی صارفین اور صنعتی صارفین کو کتنے کتنے سال قیدکی سزائیںدی جائیںاوراِن کو جوبھاری جرمانے ہونے چاہئیں اور اِن کی حدکتنی ہونی چاہئے اِس حوالے سے سندھ، خیبرپختونخواہ ، بلوچستان اور پنجاب وغیرہ سے جیسے ہی تجاوزیر وفاقی وزارت پانی بجلی کو موصول ہوئیں تو فورا سے بیش تر وفاقی حکومت حتمی سفارشات تیارکرے گی اورمشترکہ مفادات کی کونسل سے وفاقی وزارت بجلی چوروں کو قیدوجرمانے کی سزاوں کی سمری منظوری کے لئے پیش کرے گی ایک اجلاس منعقد کیاجائے گاجس کی صدارت وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کریں گے اور جس میںچاروں صوبوں کے وزرائے اعلی متعلقہ وفاقی وزرابھی شرکت کریں گے یوں مشترکہ مفادات کونسل کی حتمی منظوری کے بعد بجلی چوری میں ملوث گھریلو، تجارتی، زرعی اور صنعتی صارفین کے لئے سزاوں پر عملدرآمدکا آرڈیننس یا بل فوری طور پر نافذ کر دیا جائے گا اور اِس سے متعلق خبر یہ ہے کہ وفاقی وزارت پانی بجلی کے ترجمان نے یہ بھی بتایاہے کہ اِس آرڈیننس یا بل میںیہ بھی درج ہوگاکہ ایسے گھریلو صارفین جن کے بجلی کے میٹرسست ہوںگے اور وہ اِس طرح کی بجلی چوری کیس میں پکڑے جائیں گے تو اِن کو چھ ماہ کی قیداورپانچ لاکھ روپے جرمانہ ہوگااوراِسی طرح تجارتی اور صنعتی صارفین کو صوبوں کی منظوری سے 5سے 14سال تک قید اور ایک کروڑ روپے تک کے جرمانے کی سزاصوبوںکے اتفاق رائے سے دی جاسکے گی اور اِس کے علاوہ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ حکومت ملک میں بجلی کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے لئے کوئی نیاپروجیکٹ شروع کرنے کے بجائے فوری طورپر آئین کے آرٹیکل 157کے تحت وفاقی حکومت الیکٹرسٹی ایکٹ میں ضروری ترامیم بھی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اِن ترامیم کا مسودہ بھی فوری طور صوبوں کو بھجوادیاگیاہے جس سے متعلق کہاجارہاہے کہ صوبے عنقریب اپنی سفارشات بھجوائیں گے اِس کے بعد کی جانے والی ترامیم کی روشنی میںصوبوں کو بجلی کے دوسرے معاملات بھی تقویض کردیئے جائیں گے ۔اِس موقع پر ہم یہ ضرور کہیں گے کہ یہ صحیح ہے کہ ملک میں گھریلو، تجارتی، زرعی اور صنعتی صارفین اپنے اپنے ظاہر وباطن طریقوںسے بجلی چوری جیسے فعل شنیع کواپناحق سمجھتے ہیں جس کی وجہ یہ لوگ یہ بتاتے ہیں کہ حکومت ایک طرف تو کئی کئی گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کرتی ہے تو دوسری طرف بجلی نہ ہونے کے باوجود بھی ہرماہ بجلی کابل بھی گزشتہ مہینے سے بڑھ کرآتاہے اِس پر بجلی چوری کا عمل نہ کیاجائے تو پھر کیا کریں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت بجلی کی چوری میں ملوث عناصر کو کڑی سے کڑی سزا ضرور دے مگر اِس سے قبل یہ اپنی کارکردگی کو بھی بہتربنائے اور اس کے ساتھ ہی ہر سطح کے صارفین بجلی کو کم قیمت کے ساتھ بجلی بھی بلاتعطل مہیاکرے جس سے صارفین بجلی کو ذہنی اور جسمانی اذیت نہ برداشت کرنی پڑے اوراِس طرح جب حکومت اپنے اِس مقصد میں کامیاب ہوجائے تو پھر بے شک بجلی کی چوری میں ملوث افراد کو اپنی تقویض کردہ سزائیں بھی ضرور دے اِس موقع پر ہم ایک بار پھر یہی کہیں گے کہ مگر اِس سے قبل وفاقی اور صوبائی حکومتیں یہ بات ذہن میں ضرور رکھیں کہ آج بجلی چوری کا مسئلہ اِ س حکومتی ضد پر زیادہ زورپکڑ چکاہے کہ حکومت بجلی صارفین کو بجلی بھی نہیں دیتی اور اِس کے ٹیرف میں بھی محض اِس بناپر اضافہ کرتی ہے کہ اِس طرح بجلی کے شعبے میں بہتری آئے گی جو اب تک تو نہیں آسکی ہے تو آئندہ حکومت بجلی چوروں کو سزادے کر بھی کیابہتری لاسکے گی .؟اِس پر ہم پھر یہی کہیں گے کہ حکومت کو بجلی چوروں کو سزاکامنصوبہ درست ہے مگر پہلے بجلی دے۔ خواہ حکومت پیپکو کا ادارہ ختم کرے یا نہ کرے مگر ضروری ہے کہ حکومت ملک میں بجلی کی پیداواری صلاحیتوں کو بڑھانے کے لئے نئے یونٹ لگائے۔ تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم