عسکریت پسندوں سے بات چیت ہتھیار ڈالنے سے مشروط

Rehman Malik

Rehman Malik

پاکستان صرف ان عسکریت پسندوں سے امن مذاکرات کرے گا جو ہتھیار پھینکنے کے لیے تیار ہیں۔یہ بات وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے منگل کو صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ پہنچنے پر صحافیوں سے گفتگو میں کہی۔کم از کم ایجنڈا یہ ہے کہ (عسکریت پسند) اپنے ہتھیار پھینکیں اور سامنے آئیں  لیکن اگر وہ یہ امید رکھیں گے کہ ہاتھ میں کلاشنکوف بھی ہو گی اور بات کریں گے تو یہ ممکن نہیں۔رحمن ملک کا یہ بیان بظاہر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی طرف سے رواں ماہ کے اوائل میں اپنائے گئے اس موقف سے مطابقت نہیں رکھتا جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ہتھیار پھینکنے کی براہ راست شرط عائد کرنے سے گریز کریں گے کیوں کہ ایسا کوئی عمل قبائلی روایات کے برعکس ہو گا۔ البتہ انھوں نے کہا کہ حکومت قبائلی علاقوں میں امن کو موقع دینا چاہتی ہے اور تمام عسکریت پسندوں سے بات چیت پر تیار ہے بشرطیکہ وہ تشدد کی راہ ترک کر دیں۔ملک میں چند سالوں سے جاری انتہا پسندی اور دہشت گردی کی لہر سے نمٹنے کے لیے امن مذاکرات کو ترجیح دینے کا فیصلہ گزشتہ ماہ کل جماعتی کانفرنس میں کیا گیا تھا، جس کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ پاکستان کو امن و مصالحت پر مرکوز نئی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے جس کے تحت قیام امن کے لیے اپنے لوگوں کے ساتھ بات چیت شروع کی جائے۔اس موقف کے باضابطہ اعلان کے بعد اطلاعات کے مطابق پاکستانی طالبان نے حکومتی حکمت عملی میں بظاہر نمایاں تبدیلی کو خوش آئندہ پیش رفت قرار دیا۔مقامی انگریزی روز نامے دی ایکسپریس ٹریبیون نے عسکری تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ایک اہم کمانڈر مولوی فقیر محمد کے حوالے سے خبر دی کہ مذاکرات کے آغاز کے لیے ضروری ہے کہ حکومت پاکستان امریکہ سے اپنے تعلقات کا از سر نو جائزہ لے اور ملک میں شریعی نظام نافذ کرے۔پاکستانی فوج نے 2009 میں ضلع سوات اور اس سے ملحقہ اضلاع میں طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف موثر کارروائی کرتے ہوئے بیشتر علاقوں میں حکومت کی عمل داری بحال کر دی تھی لیکن کئی ماہ تک جاری رہنے والی کارروائی سے فرار ہونے والے جنگجوں نے ناصرف ملک کے قبائلی علاقوں اور افغانستان میں پناہ لے لی بلکہ ان کی پر تشدد کارروائیوں بشمول خودکش حملوں کا سلسلہ پاکستان کے بڑے شہروں تک پھیل گیا۔