یوں تو اس وقت وطنِ عزیزبے شمار مسائل کی آماجگاہ بنا ہو ا ہے اور ہر مسئلہ ا پنی اپنی جگہ ہنگامی حل کا متقاضی ہے۔اورطرفہ تماشہ یہ کہ اربابِ اختیار اور اربابِ اقتدار اس وقت اپنے اپنے اختیار اور اقتدار کی دکان سجا ئے اونچی بو لی دینے والے گاہکوں کے انتظار میں بیٹھے نظر آتے ہیں۔ زلزوں کی تباہ کاریاں ابھی ختم نہیں ہو پاتیں کہ دھماکوں کی آواز سے سارا ملک گونج اٹھتا ہے۔ خودکش حملہ آوروں کی نئی کھیپ کے انتظار کی وجہ سے اگر ان دھماکوں کی آوازیں اگر ذرا ماند پڑتی ہیں تو سیلاب کی آمد آمد شروع ہو جاتی ہے۔ سیلاب کی ہائے ہائے ختم ہو نہیں پاتی کہ مچھروں کی فوج ظفر موج بمعہ ڈینگی وائرس کے پوری قوم پر پل پڑتی ہے۔ اور اس وقت اربابِ اختیار اور اربابِ اقتدار اپنے اپنے شیشوں کے گھروں میں بیٹھ کر یوں تماشا کر رہے ہوتے ہیںجیسے ان کا تعلق کسی اور ملک کسی اور معاشرے سے ہے۔ لیکن اس وقت ہم جس مسئلے کی نشان دہی کرنے جا رہے ہیں وہ دیکھنے میں شاید اتنا گھمبیر معلوم نہ پڑے لیکن ہمارے اس وقت کے بیشتر مسائل کا تعلق اسی زنجیر کی کڑی سے ہے۔ وہ مسئلہ ہے پشاور میں سِکھوں کی غیر معمولی موجودگی اور سرگرمیوں کے متعلق۔ جی ہاں پشاور میں سِکھ حضرات کا ہوناوہ بھی پنجابی سِکھ نہیں بلکہ پشتو بولنے والے سِکھ۔ جی ہاں یہ لوگ آپس میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ پشتو میں ہی گفتگو کرتے ہیں۔ عجیب نامانوس لہجے میں پشتو والے یہ سِکھ کون ہیں کہاں سے آئے ہیں کوئی نہیں جانتا۔ان کی تعداد پہلے سینکڑوں میں تھی اب ہزاروں میں ہے۔ ان کی کوئی میت ہوجائے تو آرام سے تین چار سو رنگین پگڑیاں گنی جا سکتی ہیں۔ بہت تیزی یہ لوگ کاروباروں میں چھا رہے ہیں ۔ زیادہ تر کپڑے کاکاروبارکرتے ہیں۔ پھر حکمت کا کام، ادویات کا کام، اشیائے خوردونوش میں تھوک کا کام اس کے علاوہ غیر ملکی اشیاء کا کام میں بھی یہ لوگ پیش پیش ہیں۔ پشاور کا قدیم علاقہ ڈبگری اِ ن کا گڑھ ہے۔ اسی علاقے کے محلہ جوگن شاہ میں ان کے قدیم گردوارے بھی ہیں اور ان کا اپنا سکول بھی ہے۔ اس کے علاوہ نزدیک ترین پشاور کا پوش علاقہ قائد آباد بھی ان کا گڑھ بنتا جا رہا ہے جہاں یہ منہ مانگی قیمت سے بھی بڑھ چڑھ کر بولی لگا کر جائیدادیں خرید رہے ہیں۔ یہ لوگ بظاہر بہت امن پسند اور صلح کل نظر آتے ہیں۔ نہ کسی سے فالتو بات کرتے ہیں اور نہ کسی سے اُلجھتے ہیں۔ غرض ایک پراسرار خاموشی سے یہاں زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ کون ہیں کہاں سے آئے ہیں۔اپنے متعلق وہ یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ اُن کا تعلق وزیر ستان سے ہے یا یہ کہ وہ تیراہ سے آئے ہیں ۔اور یہ کہ ان علاقوں میں حالات خراب ہونے کے بعد اور طالبانائزیشن کے بعد اُن کا ان علاقوں میں رہنا چونکہ ناممکن ہو گیا تھا لہذا اُنہیں نقل مقانی کرنا پڑ گئی۔ لیکن یہ دعویٰ اس لیے مشکوک ہے کہ اول ان کی پشتواِن علاقوں سے تعلق نہیں رکھتی دوسرا ان علاقوں میں حالات خراب ہوئے چند برس ہی ہوئے ہیں جبکہ اِن لوگوں کی آمد نوے کی دہائی میں ہی شروع ہو گئی تھی۔ اصل حقیقت اِن لوگوں کی یہ ہے کہ یہ نہ تو قبائیلی علاقوں سے آئے ہیں اور نہ ہی پاکستان کی سرزمین سے اِن کی کو ئی نسبت ہے بلکہ یہ لوگ افغانستان کے رہنے والے ہیں اور صدیوں سے یہ لوگ وہیں آباد تھے۔ جب طالبان اور مجاھدین کی جنگ پہاڑوں سے اُتر کر شہروں میں داخل ہوئی اور ان کے کام کاروبار مشکل ہو گئے تو یہ لوگ آہستہ آہستہ پاکستان آنا شروع ہوگئے۔ جوں جوں اِن کے پاؤں جمتے گئے یہ اوروں کو بھی بلاتے گئے۔چونکہ یہ لوگ صدیوں سے اُدھر آباد تھے اور وہاں کی معاش معیشت پر چھائے ہوئے تھے لہذا پاکستان آکر انہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوئی۔ اور یوں آہستہ آہستہ یہ لوگ یہاں پر بھی چھاتے گئے۔ اِن لوگوں کے اِدھر آنے سے ہمارے لیے کیا کیا معاشرتی ،سماجی، سیاسی ،مذہبی مسائل پیدا ہوں گے۔یہ تو بعد کی بحث ہے اصل مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان میں اتنی تعداد میں جو سکھ موجود تھے تو اتنی ہی تعداد میں ہندو آبادی بھی تو تھی۔ کیا وہ لوگ افغانستان میں ہی رہ گئے یا انہوں نے بھی نقل مکانی کی ہے۔ تو جواب یہ ہے کہ جی ہاں وہ بھی اپنے سِکھ بھائیوں کے ساتھ ہی اِدھر تشریف لائے ہوں گے لیکن چونکہ سکھ تو اپنی پہچان یعنی پگڑی سے تو پہچانے جاتے ہیں ۔ ایک پشتو بولنے والے اور صدیوں سے مسلم کلچر میں رہنے والے ہندو کی کیا پہچان یا شناخت ہو سکتی ہے۔ اگر وہ ہندو ماتھے پر تلک نہ لگائے بلکہ مسلمان علماء کی طرز کی ایک پگڑی سر پر باندھ لے اور ان پڑھ جاہل لوگوں میں جا کر اسلام کی ایسی تبلیغ اور تلقین کرنا شروع کر دے جس میں خودکش حملے بھی جائز ہوں اور بے گناہ معصوم لوگوں کا قتل بھی جنت کی ضمانت ہو ۔اور یقین کریں کہ اسی طرح ہوا ہے ۔ قبائیلی علاقوں میں اس طرح کے خطیب پکڑے گئے ہیں جن کے ختنے نہیں ہوئے تھے۔ سوات آپریشن کے دوران ایسے طالبان کی لاشیں ملیں جو بغیر ختنے کے تھے۔ یہ جو افغانستان میں پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ شہروں میں بھارت کے تیئس کے قریب کونصلیٹ کام کر رہے ہیں وہ یہی کام ہے۔ورنہ ایک ایسا ملک جو شورش زدہ ہو اورجہاں آدھے سے زیادہ ملک میں حکومت کی رِٹ ہی نہ ہو وہاں اتنی بڑی تعداد میںایسے دفاتر کھولنے کامقصد وہاں کے بھوکے ننگے عوام کو بھارتی ویزہ دینے کے علاوہ یقیناکچھ اور بھی ہو گا۔ اب سوال یہ ہے کہ ہزاروں لاکھوں سکھ اور ہندو جو پاکستان میں صدیوں سے رہ بس رہے ہیں کیا وہ سب بھارتی ایجنٹ ہیں ۔تو جواب یہ ہے کہ ہر گز نہیں ۔ اس لیے کہ کروڑوں مسلمان جو بھارت میں رہ ہے ہیں وہ جب پاکستانی ایجنٹ نہیںہو سکتے تو یہاں کی غیر مسلم آبادی کس طرح پاکستان دشمن ہو سکتی ہے۔ لیکن جو لوگ کسی تیسرے ملک کے پیدائشی ہوں اور صدیوں سے اُن کی بُودوباش بھی اُدھر کی ہو اُن لوگوں کا پاکستان کے ساتھ یا پاکستان کے مفادات کے ساتھ مخلص ہونا ضروری نہیں ہے۔ لیکن ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ وہاں سے آنے والا ہر ہندو اور ہر سِکھ بھارت کا ایجنٹ ہو گا۔ بلکہ ہم انتہائی محتاط اندازے کے مطابق بات کریں تو ایک فیصد ہی ایسے لوگ ہوگے جو ہمارے ساتھ یا ہمارے ملک کے ساتھ مخلص نہیں ہیں۔یہی وہ ایک فیصد ہے جو پاکستان کی پشتون بیلٹ میں ہونے والے حالات و واقعات کی ذمہ دار ہے۔ کراچی میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا الزام صرف سیاسی جما عتوں پر ہی لگانا درست نہیں بلکہ یہ ان دیکھے بیرونی ہاتھ بھی نظر انداز نہیں کیے جاسکتے۔ پاکستان کو توڑنے کی کوششیں اس وقت اپنے عروج پر ہیں۔ کوئی اب بھی بھارت دوستی کے خواب اگر دیکھ رہا ہے تو اتنا جان لے کہ بھارت پاکستان میں دو سو ملین ڈالر صرف اور صرف میڈیا پر خرچ کر رہا ہے ۔ تاکہ ہمیں دو قومی نظریے سے دور کیا جائے اور ہمارے دل میں اپنی ہی تاریخ سے نفرت پیدا کی جائے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ امریکہ پاکستان ہی کے لیے افغانستان آیا ہے۔ پاکستان کا نیوکلئیر پروگرام ہی پاکستان کی دشمنی کا سبب بن گیا ہے۔ رہا بھارت تو اُس نے کب اور کہاں پاکستان کو دل سے تسلیم کیا ہے۔ مشرقی پاکستان کو جس طریقے سے ہم سے جدا کیا گیا تھا وہی طریقہ اب چند تبدیلیوں کے ساتھ ہمارے باقیماندہ وجود کے ساتھ آزمایا جارہاہے۔ اس سارے تناظر کو اگر پشاور میں سِکھوں کی موجودگی کے ساتھ نتھی کریں تو سارا گیم پلان سمجھ میں آتا ہے۔ ہمیں سیاسی ،عسکری، معاشی ، اقتصادی، مذہبی غرض ہر لحاظ سے غیر مستحکم کیا جارہا ہے۔ بلکہ اب نہیں تو کچھ عرصے کے بعد اس چیز کے بھی شواہد ملیں گے کہ پاکستان میں بائیولوجیکل ہتھیار کے طور پر ڈینگی وائرس متعارف کرایا گیا تھا۔ تاکہ سندھ سیلاب میں بہتا رہے۔ سرحد بلوچستان دھماکوں سے لرزتے رہیں ۔ کراچی ٹارگٹ کلنگ میں اُلجھا رہے۔ اور رہ گیا پنجاب تو ڈینگی کا تحفہ دیکر اُسے بھی کسی آفت میں مصروف کر دیا جائے۔ اربابِ اقتدار تو اس وقت ڈالروں کی گنتی ،ان کو سنبھالنے اور ٹھکانے لگانے میںاتنے مصروف ہیںکہ اُن سے اگر کوئی قومی بھلائی کا کام ہو گیا تو یہی سمجھنا چاھئیے کہ یہ حسین حادثہ اتفاقاً ہی پیش آیا ہے۔ باقی رہے صاحبانِ اختیار۔ اُن سے گزارش ہے کہ حضور ان سیاست دانوں تو الیکشن ہارنے کے بعد دبئی اور ملائیشیا چلاجانا ہے تاکہ اپنی کمائی ہوئی جہنم کو مزید بھڑکایا جاسکے لیکن آپ نے جنابِ والا اِدھر ہی رہنا ہے۔ اور اِدھر ہی مرنا جینا ہے ۔لہذا آپ ہی کوئی قدم اٹھائیں۔ اور اس بڑھتے ہوئے طوفان کو لگام دیں۔ ورنہ جس طرح لا کھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین نے پیسے لگا کر پاکستانی شناختی کارڈ جیب میں رکھ لیے ہیں۔ اسی طرح یہ لوگ بھی کہیں ہمارے لیے ایک نیا کینسر نہ بن جائیں۔ اور آج کی طرح کل بھی اپنے ہاتھ ملتے نظر آئیں۔ اس لیے خدشہ ہے کہیں۔۔۔۔۔ تحریر: شمریز خان پیرس