ہم بڑے جذباتی لوگ ہیں، بھارت میں انا ہزارے نامی ایک سماجی رہنما نے کرپشن کے خلاف دھرنا دیا تو ہم پاکستانیوں نے اپنے دلوں میں اسے وہ مقام دیا جو اپنے کسی بہت ہی پیارے شخص کو دیا جاسکتا ہے۔ ہمارے ایک رہنما تو اتنے جذباتی ہوئے کہ انہوں نے دورہ بھارت کے دوران ان سے ملاقات کی اور انہیں پاکستان آنے کی دعوت دی، عوام میں بھی موصوف کی پذیرائی کا یہ عالم تھا کہ ان دنوں یہ مسیج بہت مقبول ہوا کہ بھارت میں تو صرف ایک انا ہزارے ہے جبکہ ہمارے ہاں ہزاروں انے (اندھے) ہیں۔اور اب بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے اور وہ یوں کہ سماجی کارکن ہمیشہ قومی تعصبات سے بالاتر ہو کر عوام کی خدمت کرتے ہیں جس کی بہترین مثال ہمارے مولانا عبدالستار ایدھی ہیں جبکہ پاکستان اور کشمیر کے بارے میں بھارت کے اس سماجی رہنما کا خبث باطن کچھ اور ہی ظاہر کرتا ہے۔ بھارت کی معروف انسان دوست شخصیت اور بہت بڑی ناول نگار آرون دھتی رائے نے تو شروع ہی میں کہہ دیا تھا کہ یہ شخص فراڈ ہے ، اسی طرح بھارت کے بہت موقر اخباراتہندو اورانڈین ایکسپریس میں کچھ معقول لکھنے والوں نے اس پر الزام لگایا تھا کہ یہ شخص اربوں روپوں کا گھپلا کرنے والے کارپوریٹ کا ایجنٹ ہے جس کا مقصد عوام کی توجہ ان گھپلوں سے ہٹانا، سیاستدانوں کو بدنام کرنا اور حکومت کواس درجہ کمزور کرنا ہے کہ وہ کارپوریٹ کرائم کی طرف توجہ نہ دے سکے تاہم انا ہزارے نامی اس شخص نے رہی سہی کسر خود پوری کردی ہے اور ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ65 کی جنگ میں پاکستان کے خلاف لڑا ہے بلکہ آئندہ بھی اگر کبھی جنگ ہوئی تو وہ پاکستان کے خلاف لڑے گا۔ انا ہزارے کا کہنا ہے کہ اس کے سر پر اس گولی کا نشان ابھی تک باقی ہے جو65 کی جنگ میں اسے لگی تھی، حالانکہ اس گولی کےآفٹر افیکٹس بھی اس کے ان حالیہ بیانات میں جھلکتے ہیں جس میں اس نے کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دیا ہے۔ ایسا بیان بھارتی سرکار دے سکتی ہے ،کوئی جنونی دے سکتا ہے، ظالموں کا کوئی ساتھی دے سکتا ہے اور یا پھر کوئی پاگل شخص جو جانتا ہی نہیں کہ بھارت کی سات لاکھ فوج برس ہابرس سے اپنے اس اٹوٹ انگ میں آباد کشمیریوں سیچھتر کھاتے کھاتے ذہنی بیماریوں کا شکار ہوچکی ہے اور اب خود بھارت میں ارون دھتی رائے ایسی صائب الرائے متعدد شخصیات کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا مطالبہ کررہی ہیں اور تو اور چند روز قبل خود ان انا ہزارے صاحب کے ایک کارکن نے کشمیریوں کے اس حق کی حمایت میں بیان دیا تھا جس پر جنونیوں نے اس کی پٹائی کردی اور یوں موصوف ڈر گئے کہ کہیں ان کا بھی یہ حشر نہ ہو، صرف یہی نہیں بلکہ عوام میں عدم مقبولیت کی وجہ سے ان کا وہ اصل ایجنڈا بھی کہیں کھنڈت میں نہ پڑجائے جس کے لئے انہیں یہ سارا بہروپ رچانا پڑاتھا۔ مجھے اس امر میں بھی کوئی شبہ نہیں رہا کہ بھارت پاکستان کا دوست نہیں ہے ۔ برصغیر کے مسلمانوں کی یہ پناہ گاہ اس کا معدہ ہضم نہیں کررہا ،اکھنڈبھارت اس کا خواب ہے اور سرکاری سطح پر اس کا اظہار ہوتا رہا ہے۔ مشرقی پنجاب کے وزیر اعلی نے تو لاہور میں بیٹھ کر اپنے پاکستانی میزبانوں کے سامنے اس ہذیان گوئی کا مظاہرہ کیا تھا۔ بھارت میں منعقدہ ایک ادبی تقریب میں ایک وزیر صاحبہ نے بھی اس طرح کی خرافات بکی تھیں جس پر میں نے اسٹیج ہی سے اس کی ایسی کی تیسی کردی تھی ۔اس طرح بھارت کے بعض سرکاری دانشور بھی سرکار کی زبان بولتے نظر آتے ہیں۔ بہت عرصہ قبل آکاش وانی کے ایک دانشور میزبان نے انٹرویو کے دوران مجھ سے اپنے مطلب کی بات اگلوانے کی کوشش کی تو میری ناگواری پر انٹرویو کے بعد اس نے ہنستے ہوئے مجھے کہاہماری پالیسی دانہ ڈالنے کی ہے ، اگر کوئی یہ دانہ چگ لے تو اس کی مہربانی اور نہ چگے تو بھی ٹھیک ہے، ویسے آپ کے کچھ دانشور ایسے بھی ہیں جنہیں یہ دانہ نہ بھی ڈالا جائے تو وہ خود ہی چگنے لگتے ہیں۔ اس تمام صورتحال کے باوجود روشنی کی ایک کرن ان بھارتی دانشوروں کے بیانات اور مضامین میں نظر آتی ہے جو برصغیر میں قیام امن کے حامی ہیں جو دونوں ملکوں کے درمیان موجود تنازعات کا حل چاہتے ہیں اور جو یہ سمجھتے ہیں کہ جنگوں نے ان دونوں ملکوں کی غربت ہی میں ا ضافہ کیا ہے اور یوں ضروری ہوگیا ہے کہ یہ دونوں ایٹمی ملک پرانی کدورتیں بھلا کر ایک دوسرے کے ساتھ بہترین پڑوسیوں والا رویہ اپنائیں، باہمی آمد ورفت میں حائل رکاوٹیں دور کی جائیں ،تجارتی اور ثقافتی تعلقات قائم ہوں اور وہ سب کچھ ہو جس سے دوستی، محبت اور بقائے باہمی کے اصولوں کی پاسداری ہوتی ہو، میں خود بھی اسی رائے کا حامل ہوں لیکن جب انا ہزارے جیسے بدبخت پاکستان اور کشمیر کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہیں اور دونوں ملکوں میں ماضی کی تلخیاں فراموش کرنے کی بات کرنے کی بجائے 65 کی جنگ میں لگنے والی اس گولی کا ذکر کرتے ہیں جس کی نشانی ان کے ماتھے پر ابھی تک موجود ہے تو پھر بھارت نے جو گولی1971 میں ہمارے دل مشرقی پاکستان میں ماری تھی اسے بھلانے کا اگر کوئی طریقہ ہے تو براہ کرم وہ بھی بتلا دیں۔