امریکا نے یمنی صدرعلی عبداللہ صالح کی جانب سے جی سی سی کے پیش کردہ فارمولے پر دستخط کے لئے کسی بھی قسم کی ضمانت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ واشنگٹن، کسی اضافی ضمانت کو ضروری خیال نہیں کرتا۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے نے مارک ٹونر کے حوالے سے بتایا ہے کہ مسئلے کی جڑ صدر صالح کی ذات اور ان کا معاہدے سے مسلسل دستخط سے انکار ہے۔ انہوں نے صدر صالح سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے وعدے پورے کریں اور یمن میں انتقال اقتدار کے لئے خلیج تعاون کونسل کے تیارکردہ فارمولے پر فوری طور پر دستخط کریں۔ اس سے پہلے یمن کے صدر علی عبداللہ صالح نے کہا تھاکہ امریکا، یورپی یونین اور خلیجی ممالک تحفظ کی ضمانت دیں تو وہ خلیج تعاون کونسل کی جانب سے انتقال اقتدار کے لئے پیش کردہ فارمولے پر دستخط کے لیے تیار ہیں۔ العربیہ ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق صدر علی صالح نے ان خیالات کا اظہار حکمراں جماعت پیپلز کانفرنس کی سینٹرل کمیٹی کے ایک ہنگامی اجلاس کے دوران خطاب میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ “میں زخمی ہونے کے بعد سعودی عرب میں زیر علاج تھا۔ میری جگہ نائب صدر بھی خلیجی فارمولے پر دستخط کر سکتے تھے لیکن اس کے لیے ضروری تھا کہ ہمیں امریکا، یورپ اور خلیجی ممالک کی جانب سے ہر ممکن تحفظ کی ضمانت فراہم کی جاتی۔میں جی سی سی فارمولے پر دستخط کے لیے تیار ہوں لیکن یہ فارمولہ غیر مشروط ہونا چاہیے اور اس میں ہمیں ان تین قوتوں امریکا، یورپی یونین اور جی سی سی کی طرف سے ضمانت ملنی چاہیے۔ یمنی صدر کا کہنا تھاکہ اپوزیشن نے ملک میں انقلاب کی جو رٹ لگا رکھی ہے، وہ یمنی قوم کی آواز یا مطالبہ نہیں بلکہ یہ اس مخصوص لابی کی سازش ہے جو بعض دیگر عرب ممالک کی تقلید کرتے ہوئے یمن کو بھی عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتی ہے۔ قتل و غارت گری، انتقام اور خونریزی یمنی قوم کی ثقافت اور تہذیب کا کبھی حصہ نہیں رہی۔ ایک مخصوص گروہ نے ملک کو بدامنی کی دلدل میں دھکیلے کی راہ اپنا رکھی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ لوگ راہ چلتے معصوم شہریوں پر بھی گولیاں چلاتے ہیں اور فوجی کیمپوں میں داخل ہو کر ملک وقوم کے محافظوں کو بھی شہید کرتے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں کہ بندوقیں، کلاشنکوفیں اور راکٹ لانچر اٹھا کر سڑکوں پر نکلنے والے کس منہ سے پرامن احتجاج کی بات کر رہے ہیں۔