کہنے والوں نے کہاہے کہ غربت کیا ہے ایک خوفناک عذاب ہے اور اگر جب کسی قوم پر یہ عذاب نازل ہو رہا ہو یا ہو گیا ہو یا ہونے والا ہو تواگر اِس قوم میں اِس سے مقابلہ کرنے اور اِسے ہرانے کی طاقت اور صلاحیت ہوتو پھر یہ عذاب ختم بھی ہوجاتاہے اور اگر قوم اِس عذاب کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہو تو پھر یہی عذاب اِس قوم کے لئے توہین کا بھی باعث بن جاتاہے اِسی لئے توشاعر مشرق حضرتِ علامہ اقبال نے فرمایا ہے کہ غربت ام الخبائث ہے اور یہ حقیقت ہے کہ بھوک اور غربت میں چولی دامن کا سا تھ ہے جن کی وجہ سے ہر زمانے میں نت نئے فتنوں نے جنم لیا اور مسائل نے سراٹھایااور معاشرے اپنی تباہی کا شکار ہوتے رہے اور یہی وجہ ہے کہ اِس سے متعلق یہ بھی کہاجاتاہے کہ بھوک غربت کاایک ایسا خوفناک اور بھیانک تحفہ ہے جس نے اِنسانی قدروں کو پال کیاکیوں کہ یہ دردناک تحفہ جب بھی جس زمانے اور معاشرے کے لوگوں کو ملاہے یہ ان میں ہر طرح کی اخلاقی، معاشی اور اقتصادی بیماریوں کے پھیلاوکا باعث بنا ہے آج دنیاکی تاریخ گواہ ہے کہ بھوک اور غربت کی وجہ سے اتنے لوگ جنگلوں میں نہیں مرے ہیں کہ جتنے بھوک وافلاس اور غذائی قلت کا شکار ہوکر بنی نوع اِنسان اِس ہری بھری اور روشنیوں سے آنکھوں کوچکاچوندکردینے والی دنیا سے کوچ کرگئے ہیں۔ اگرچہ دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس سے انکار ناممکن ہے کہ ہرزمانے کے ہر معاشرے میں دوقسم کے لوگ امیرو غریب موجودرہے ہیں اور یہ سلسلہ آج اِس جدیداکسیوںصدی میں بھی قائم ہے یعنی یہ کہ ہماری سوسائٹی بھی دو قسم کے لوگوں کامجموعہ ہے اول یہ کہ وہ لوگ جنہیں بھوک کم ہوتی ہے لیکن ان کے پاس سامان خورونوش وافرمقدار میں موجودہوتاہے اور دوئم وہ لوگ جنہیں بھوک تو زیادہ ہوتی ہے لیکن ان کے پاس سامانِ خورونوش کم یا کبھی کچھ بھی نہیں ہوتاہے اور یہی وہ لوگ ہیں جن کی تعداد ازل سے ہرزمانے اور معاشرے میں زیادہ ہوتی ہے اور اِن ہی لوگوں پر ملک و ملت اور اقوام کے مستحکم اور غیر مستحکم ہونے کا دارومدار بھی ہوتاہے اور یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جواگر اپنے مستقل مزاجی اور میانہ روی اختیارکرلیں تو اپنے ملک اور قوم کواوجِ ثریا پر بھی لے جاسکتے ہیں اور اگر اپنی غربت اور مفلسی کو ہی اپنی کمزروی سمجھ کر روگ بنالیں تو پھر یہی لوگ اپنے ملک اور قوم کی پستی اور زوال کا بھی سبب بنتے ہیں یعنی اِن دونوں اقسام کے لوگوں کے بھی اچھے برے کارناموں سے دنیا کی تاریخ کی کتابوں کے اوراق بھرے پڑے ہیں کہ دنیامیں بسنے والے ایسے افرادبھی گزرے ہیں جن کے پیٹ تک غربت کی آگ پہنچی تو اِنہوں نے اِسے مختلف حربوں سے بجھایا لیکن جب اِسی آگ کے شعلے اِن کے دماغ تک پہنچے تو پھر انہوں نے دنیامیں انقلاب برپاکرکے اِس آگ کو بجھایا…جارج ہیرن کا قول ہے کہ کیاموجودہ تہذیب کے ماتھے پر یہ بدترین سیاہ دھبہ نہیں ہے کہ سائنس کی اِس قدر حیرت انگیز ترقی اور زبردست ایجادات اور انسانی زندگی کی ضروریات کے سامان کی فراوانی کے باوجود بھی آج کی دنیامیں اِس قدر افلاس، تنگ دستی، جہالت اور جرائم موجود ہیں؟یہ تمام آفات استحصالی نظام کا نتیجہ ہیں یعنی یہ کہ استحصالی نظام نے دنیاکو اپنے شکنجے میں ایساجکڑرکھاہے کہ غریب توغریب تراور امیر،امیرتر ہوتاجارہاہے اِس نکتہ نگاہ سے ہمیں یہ کہنے دیجئے کہ خلائی تسخیر کے باوجودبھی ہماری زمین پر بھوک اور غربت آج بھی آزادی سے محورقص ہیں آج بھی دنیاکر بیشترممالک(بھارت سمیت) میں ایسے بچے موجود ہیں جو بھوک اور تھکن سے نڈھال ڈھانچوں کی طرح ہیں، کروڑوں انسان ایسے ہیں جنہیںجان توڑ محنت کرنے کے باوجود مناسب معاوضہ نہیں ملتااربوں انسان آج بھی ان پڑھ اورآج بھی ماوں کی ایک بڑی تعداد ایسی موجود ہے جو اپنے بچوں کے لئے بس خواب دیکھتی ہے اوراِس امیدکے سہارے جیتی ہے کہ شاید اِن کے بچوں کو بھوک اور افلاس سے نجات مل جائے اور اِن کے بچے بھی پیٹ بھرکرراتوں کو چین سے سو سکیں۔ آج بھی دنیامیں ایسی بے شمار مائیںموجود ہیں جو اپنے کلیجوں پر ہاتھ رکھ کر کہتے ہیں کہ خوشحالی زندگی اور غربت موت ہے جب ہی برنارڈشا کا قول ہے کہدنیاکا سب سے بڑااور بدترین گناہ افلاس ہیاور یہی وہ غربت اور افلاس ہے کہ جس نے آج جنوبی ایشیامیںسپر طاقت کے روپ میں نمودار ہونے والے ہمارے پڑوسی بھارت حقیقت دنیاکے سامنے کچھ اِس طرح سے کھول کر رکھ دی ہے کہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے بڑے ملک بھارت میںایک ارب 20کروڑ افراد میں 40کروڑ افراد (جوپاکستان کی کل آبادی سے پونے دوگنا سے بھی زائد ہیں)غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبورہیں جبکہ بھارتی حکومت نے اپنے تئین نئے فارمولے کے تحت دنیامیں اپنا وقار مجروح ہونے سے بچانے کی غرض سے دیہاتوں میں یومیہ 26اور شہروں میں 32روپے کمانے والے افرادکو غریبوں میں شمار نہیں کیاہے اگر شمار کرلیتی تو بھارت میں یہ تعداد کئی گنابڑھ جاتی ادھربھارتی پلاننگ کمیشن کی جانب سے بھارتی سپریم کورٹ میں پیش کردہ رپورٹ سے پہلے ایک اندازے کے مطابق 80کروڑ بھارتی خط غربت سے نیچے زندگی گزاررہے تھے جب کہ موجودہ برسر اقتدار حکومت نے ایک سازش کے تحت اپنا امیج بحال کرنے کے لئے موجودہ رپورٹ میں غربوں کی تعداد چالیس کروڑ کم کرکے غریب کا نیافارمولا پیش کردیاہے جس کے تحت حیرت انگیز طور پربھارت میں منصوبہ بندی اور پلاننگ کمیشن کی جانب سے آنے والی رپورٹوں میں غربت کے حوالے سے بھارت کا بگڑے ہوئے امیج پر موجودہ حکمرانوں کو جب تشویش ہوئی تو انہوں نے اِن رپورٹوں کا نقشہ کچھ اِس طرح سے بدل کررکھادیاکہ بھارت کے پلاننگ کمیشن کے کرتادھرتا بھی حیران رہ گئے۔ ادھر ہیر پھیرکے بعد بھارت میں جو رپورٹ اب سپریم کورٹ کو پیش کی گئی ہے اِس کے مطابق بھارت کی 37.2فیصدآبادی غربت سے نیچے زندگی گزاررہی ہے جبکہ سال 2004-2005میں27 فیصد سے زائدبھارتی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبورتھے جبکہ بھارتی پلاننگ کمیشن کی جانب سے ستمبر میں سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق شہری علاقوں میں ماہانہ5ہزار824اور اِسی طرح دیہاتی علاقوں میں 3ہزار 905روپے کمانے والے 5افراد پر مشتمل خاندان کو غریب خاندان میں شمارکرنا ہوشیار اور چالاک بھارتیوں نے اپنی توہین جان کر اِنہیں امیرکنبہ تصور کیا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے خاندان کسی بھی مہذب اور انصاب پر مبنی معاشرے میں غریب تصور کئے جاتے ہیںیہاں ہم یہ کہیں کہ موجودہ بھارتی حکمرانوں نے دنیاکے سامنے بھارت کا جھوٹاامیج برقرار رکھنے اور اِسے ایک امیرترین ملک منوانے کے لئے اپنے یہاں غربت کے بڑھتے ہوئے گراف پر پردہ ڈالا ہے یوں اِن کا یہ جھوٹ آخر کب تک چھپارہ سکے گا …؟آخر کسی نہ کسی دن یہ دنیا کے سامنے آہی جائے گاکہ آبادی کے لحاظ سے دنیاکے دوسرے بڑے ملک بھارت میں امیری کا کیاعالم ہے اور غربت بھارت میں کس قدر آزادی سے پروان چڑھ رہی ہے…..؟ اور اِس کے ساتھ ہی دنیا کو یہ بھی پتہ چل ہی جائے گاکہ بھارت نے اپنی آبادی کے ایک بڑے حصے کو اپنے پڑوسی ملک پاکستان سے جنگی جنون میں مبتلاہوجانے اور سامانِ جنگ کی زیادہ سے زیادہ خریداری کی ہوس میں پاکستان سے آگے نکل جانے کے چکرمیں پڑکر مجبورکردیاہے کہ وہ غربت کی لکیر سے بھی نیچے اپنی زندگی گزاریں اِس پر ہم معصوم اور بے کس وبے بس مجبوراوربھوک و افلاس میں مبتلااپنے پڑوسی ملک بھارتی عوام سے صرف یہ کہیں گے کہ خداراد اپنی حالاتِ زندگی کو بدلنے اور دنیاکی ترقی یافتہ اقوام کے شانہ بشانہ چلنے کے لئے اپنے حکمرانوں کے سامنے اپنے بنیادی حقوق کے حصول اور اِن کے ذہنوں سے کشمیرکو اٹوٹ انگ سمجھے جانے والے خناس اور پاکستان سے جنگ کرنے اور اِسے زیرکرنے جیسے جنون کو نکالنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوںاور اِن کو لگام دینے کی سعی کریں گے وہ اپنے جنگی جنون میں مبتلارہنے اور سامان جنگ کی خریداری میں سالانہ اربوں ، کھربوں ڈالرز غرق کرنے کے بجائے یہی رقم اپنے عوام پر خرچ کریں تو بھارتی عوام کے حالات زندگی بھی بہترہوسکتے ہیں اور بھارتی عوام بھی خطے کے دوسرے ممالک کے عوام کی طرح خوشحال زندگی گزارسکتے ہیں۔ بولو بولو بھارتیوں یہی وقت ہے بولنے اور اپنے حقوق اپنے غاصب حکمرانوں سے چھین لینے کا اور اِنہیں یہ بتانے کا کہ ہماری حالات زندگی پڑوسی ملک پاکستانی عوام سے بھی بدتر ہے ہمیں ہمارے حقوق صرف اس ہی صورت میں تم دے سکتے ہوکہ جب تم اپنے ذہنوں سے پاکستان سے جنگ کرنے کا جنون نکال دو…بھارتیوں یہ بھی اپنے حکمرانوں کو باور کرادو کہ پاکستان مصالحت پسند ملک ضرور ہے مگر ایٹمی قوت ہونے کے ناطے یہ نہ تو اپنی حب الوطنی کے لحاظ سے اور نہ ہی جذبہ جہاد سے تم سے کسی بھی صورت میں کمزور نہیں ہے۔ توبس اب اِس منظر اور پس منظر میں ہماراخیال یہ ہے کہ جو کیفیت اور سوچ آج بھارتی حکمرانوں ، سیاستدانوں اورعسکری قیادت کی ہے اِس سے مختلف کچھ ہمارے یہاں بھی نہیں ہے یعنی یہ کہ سرحد کے اِس پار اور اس پار حکمرانوں کے جنگی جنون میں مبتلارہنے کی سزابیچاری عوام ہی بھکت رہی ہے کیونکہ دنوں ممالک (بھارت اور پاکستان) کے حکمرانوں نے اپنے یہاں دولت کی تقسیم کا جو طریقہ کار رائج کررکھاہے اِس سے بھی دونوں ممالک میں بیروزگاری اور غربت ہر ذرے پر اپنے جھنڈے گاڑرہی ہے جس کے سائے میں اِن ممالک کے غریب عوام اپنی زندگیاں گزاررہے ہیں اِس موقع پر ہم ویریرایلون کا ایک المیئے سے بھرپور قول بیان کریں گے وہ کہتاہے کہ برصغیر میں ہم غربت سے اِس قدر مانوس ہیں کہ اکثر بھول جاتے ہیں کہ یہ کیاہے وہ بیان کرتاہے کہ مجھے یاد ہے کہ ایک دن ایک خاندان ہمارے پاس روتاہواآیاکیونکہ اِن کی جھگی اور سارااثاثہ آگ سے تباہ ہوگیاتھا جب میں نے ان سے پوچھاکہ اِنہیں اپنے پاوں پر کھڑے ہونے کے لئے کتنے روپے کی ضرورت ہے …؟توانہوں نے کہا:چارروپے…. ویریرایلون حیران ہوااور پھر بولا…یہ ہے غربتاِس پر ہم یہ کہیں گے کہ اپنے ہی طورطریقوں، قدیم اور جدیدروایات اور دساتیر میں مگن نسل درنسل کو غربت کا کلچرلوگوں کو گھن کی طرح کھاجاتاہے اِس سے نکلنے یا اِس کے تدارک کا سامان ہر قوم کو پہلے ہی کرناچاہئے ورنہ تباہی اِن کا مقدر بن جاتی ہے اور اِس کے ساتھ ہی یہ بھی ہم کہناچاہیں گے کہ غربت کوئی ایسی چیز نہیں کہ جسے آسانی سے ختم نہ کیاجاسکے بس اِس کو ختم کرنے کے لئے قوموں میں صبروتحمل اور برداشت کے ساتھ ساتھ غربت کے باعث جنم لینے والے حالات سے مقابلہ کرنے کاجذبہ بھی ہوناچاہئے اب اجازت چاہنے سے پہلے پاکستانی اور بھارتی حکمرانوں کے لئے یہ اشعار پیش خدمت ہیں جو اگر اِن کی سمجھ میں آگیاتو ٹھیک ورنہ ….دنوں ممالک کا خداحافظ …..ہے توپہلے اپنے پاکستانی حکمرانوں کے لئے عرض ہے کہ جب تلک بد لا نہیں جائے گا دستورِ چمن یہ نہیںممکن کہ بدلے باغبانوں کا مزاجوسوسے مٹ جائیں گے سب رنجشیں مٹ جائیں گی بندہ پرور کیجئے بیروزگاری کا علاجاور بھارتی حکمرانوں، سیاستدانوں اور بھارتی افواج کے لئے یہ شعر حاضرِ خدمت ہے کہرہیں امن ومحبت سے پڑوسی ملک آپس میں یہ خواہش تم بھی رکھتے ہو یہ حسرت ہم بھی رکھتے ہیںرکاوٹ ہے فقط کشمیر کا اِک مسئلہ ورنہ تمہیںکیا رِزم آرائی سے نفرت ہم بھی رکھتے ہیں۔ تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم