تیئس اکتوبر دو ہزار گیارہ پاکستانی تاریخ میں ایک ایسے دن کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جس دن پا کستان کی خاتونِ اول بیگم نصرت بھٹو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ یہ اعزاز کیا کم ہے کہ وہ پاکستان کے پہلے منتخب وزیرِ اعظم ذولفقار علی بھٹو شہید کی چہیتی بیوی تھیں اور دنیائے اسلام کی پہلی منتخب خاتون وزیرِ اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی والدہ تھیں۔ ان کے حصے میں جہاں اقتدار، شہر ت اور عظمت آئی وہاں ان کے حصے میں غموں کے وہ پہاڑ بھی آئے جسے اٹھا نا معمولی دل گردے کے انسانوں کا کام نہیں ہو تا لیکن اس نے ان سارے غموں کو جس پامردگی سے اٹھا یا تھا س نے اسے ایک ایسی خاتون کا روپ عطا کر دیا ہے جس کی نظیر ڈھونڈنا ممکن نہیں ہے۔ ان کی صلاحیتوں کا سب سے کڑا امتحان اس وقت آ پہنچا جب ٥ جولائی ١٩٧٧ کو جنرل ضیا الحق نے ایک شب خون کے ذریعے ذولفقار علی بھٹو کی منتخب آئینی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ عالمی سپر پاور اور ملک کی ساری مذہبی اور سیاسی جماعتیں اس شب خون میں جنرل ضیا الحق کے دست و بازو بن گئے اور اس کی عظمتوں کے گیت گانے لگے۔غاصب کو غاصب کہنے کی بجا ئے اسے امیر المومنین کے لقب سے پکارنے لگے۔ ان کا واحد مقصد ذولفقار علی بھٹو کو اپنے راستے سے ہٹا نا تھا اور ان کی نظر میں اس کام کے لئے جنرل ضیا الحق سے بہتر کوئی شخص نہیں تھا۔ ذولفقار علی بھٹو جیل کی کال کوٹھری میں بند کر دئے گئے اور پھر جنرل ضیا الحق کے بے پناہ دبائو، ضد، ھٹ دھرمی اور پریشر کے سا منے پاکستان کی عدالتِ عالیہ نے ایک انتہائی متنا زع فیصلے کے ذریعے ذولفقار علی بھٹو کی زندگی کا چراغ گل کر دیاجسے دنیا عدالتی قتل سے تعبیر کرتی ہے اور جس کا اقرار سپریم کورٹ کے ججز نے بھی کیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کا قرعہ فال بیگم نصرت بھٹو کے نام نکلا اور پھریہ باجرات خاتون جس طرح سے جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے سامنے آہنی دیوار بن کر کھڑی ہو گئی وہ ایک انتہائی خونچکاں داستان ہے اور اس داستان کا ایک ایک ورق اس نے اپنے لہو سے تحریر کیا ہے۔اس کی بسالتوں کی داستان سنا نے کے لئے میرے اس کالم کا دل بہت چھوٹا ہے ایک بحرِ بے کراں چائیے اس داستان کے لئے۔ اس میں شک و شبہ کی مطلق کوئی گنجائش نہیں ہے کہ جنرل ضیا الحق پاکستان کا سفاک ترین حکمران تھا اور اس نے اپنے مخالفین پر ظلم و ستم کے وہ پہاڑ توڑے کہ انسانیت بھی پناہ مانگے۔ لاکھوں لوگوں کی پیٹھوں پر کوڑوں کی بارش کی۔ اس میں پی پی پی کے جیالوں کی ہی تخصیص نہیں تھی بلکہ اس میں ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد جنرل ضیا الحق کی بر بریت کا نشانہ بنے۔ہر وہ شخص جو ذولفقار علی بھٹو کا نام لیوا تھا اور اس سے محبت رکھتا تھا جنرل ضیا الحق کی بربریت اس کا مقدر بنی ۔ اس ساری مشق کا واحد مقصد صرف اتنا تھا کہ لوگ بربریت کے خوف سے بھٹو کا نام لینا ترک کر دیںلیکن بربریت کے خوف سے اگر سچی محبت دم توڑ جاتی ہو تی تو پھر دنیا کے سارے آمروں کو کبھی زوال نہ آتااور ان کے اقتدار کا سورج کبھی غروب نہ ہوتا۔ سچ تو یہ ہے کہ بربریت سے ا نسا نوں کے دلوں میں پنپتی محبت کبھی ختم نہیں ہوتی بلکہ بر بریت دل میں پوشیدہ محبت کے اظہار کو اور بھی تیز تر کر دیتی ہے۔ قافلہ سا لار بیگم نصرت بھٹو کے ساتھ اس کے جیالوں کی ایک فوج تھی جو اپنی اس سالار کی قیادت میںجنرل ضیا الحق کی آمریت سے بر سرِ پیکار تھی۔پھانسیاں جیلیں کوڑے ، صعوبتیں اور سزائیں ان کا مقدر بنیں اور یہ سلسسلہ دنوں ، ہفتوں اور مہینوں کا نہیں تھا بلکہ یہ پورے گیارہ سالوں پر محیط تھا۔شاہی قلعے کی تاریک اور آہنی دیواریں جہاں جنرل ضیا الحق کے ظلم و بر بریت کی گواہ ہیں وہی پر جیالوں کی جراتوں اور وفائوں کی امین بھی ہیں۔ جیالوں پر ایسے ایسے ظلم ڈھائے گئے کہ ظلم کرنے والے ہاتھ خود بھی لرزنے لگے تھے لیکن جیالوں کے نعروں، وفائوں اور محبتوں میں کوئی ضعف نہ آیا وہ اسی طرح بر سرِ پیکار رہے جیسے ابھی ابھی میدانِ کارزار میں اترے ہوں ۔یہ عشق کی بازی بھی بڑی عجیب و غریب بازی ہے اس میںلڑتے لڑتے زندگی ہار جا ئیں تو یہ پھر کامرانی کا تاج پہناتی ہے۔ ذولفقار علی بھٹو اور اس کے جیا لوں کو اس حقیقت کا ادراک تھا کہ جان ہارنے والے ہی اس کے اصلی فاتح قرار پاتے ہیں تبھی تو وہ فتح کی آرزو کی خاطر جان کا خراج د ینے نکلے تھے۔ راہِ عشق میں وہ سر پر کفن باندھ کر اور جان ہتھیلی پر لے کر نکلے تھے محض اس لئے کہ ان کا عشق ان سے اسی بات کا تقاضہ کر رہا تھا۔ ایک دفعہ میں نے اپنے قابلِِ احترام دوست جہا نگیر بدر (جنرل سیکر ٹری پی پی پی) سے اس بارے میں استفسار کیا کہ انھوں نے جنرل ضیا الحق کے کوڑوں میں خود کو کیسے سر بلند رکھا توجہانگیر بدر نے کہا کہ ایک بے پناہ قوت اور محبت ہمارے دلوں میں موجزن تھی جو ہمیں ایسا کرنے کا حوصلہ عطا کرتی تھی۔ میں آج پلٹ کر واپس دیکھتا ہو ں تو حیران رہ جا تا ہوں کہ بے رحم جنرل ضیا الحق کی آمریت کے سامنے ہم کیسے سر خرو ہوئے ۔ در اصل عشق کی ایک انجانی قوت ہماری روحوں کے اندر ہلچل مچا ئے ہو ئے تھی جو ہمیں یہ سب کچھ برداشت کرنے کی توانائی عطا کر رہی تھی ۔جنرل ضیا الحق کوڑے برساتا جاتا تھا اور ہم جئے بھٹو کے نعرے بلند کرتے جاتے تھے ۔ جنرل ضیا لحق کے گروہ کی مثال قر یشِ مکہ کے ان سرداروں جیسی تھی جو سیدنا بلال کو مار مار کر تھک جاتے تھے لیکن سیدنا بلال کے دل میں سرکارِ مدینہ ۖ کا عشق ان کی ضربوں سے اور بھی قوی ہوتا جاتا تھا۔اگر میں یہ کہوں کہ کوڑوں کی چوٹیں ان کے عشق کے لئے مہمیز کا کام کرتی تھیں تو بے جا نہ ہو گا۔ روئے ارضی پر ظلم و جبر ، نا انصافی اور بے رحم تشدد کے خلاف سینہ سپر ہو جانے کی اس سے بڑی مثال تلاش کرنا ممکن نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ مثال انسانوں کو ظلم و جبر کے خلاف لڑنے کا حوصلہ اور ہمت عطا کرتی ہے اور جب تک دنیا باقی رہے گی یہ مجبوروں اور بے کسوں کو حوصلہ اور ہمت عطا کرتی رہے گی اور عاشقوں کے ماتھے کا جھومر بنی رہے گی۔ سیدنا بلال ایک ایسی ہستی سے عشق کی داستان لکھ رہے تھے کہ جن کی صداقت کی گواہی تو پتھر بھی دیا کرتے تھے لیکن کچھ ایسے بد بخت بھی تھے کہ جنھیں اپنی عقل و دانش اور فہم و فراست پر بڑا مان تھا لیکن جن کی عقل پر پتھر پڑ گئے تھے تبھی تو وہ سچائی کو دیکھنے سے قاصر تھے ۔ وہ یہ تمیز نہ کر سکے کہ ان کے سامنے ابنِ عبداللہ نہیں بلکہ محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہیں۔ وہ تو سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ابنِ عبداللہ سمجھ کر اپنا حساب چکتا کرتے رہے لیکن جن کی نگا ہ وں نے اپنے سامنے محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جھلک دیکھ لی تھی وہ ان پر جان و دل جان نچھاور کرتے رہے اور دونوں جہاں پاگئے۔ ان کا عشق انھیں ایسی رفعتوں سے ہمکنار کر گیا جسے چشم فلک دوبارہ کبھی دیکھ نہ پائے گی۔عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں (ڈاکٹر علامہ محمد اقبال) عشق کی اپنی دنیا ہے اپنی رسمیں ہیں اپنے پیما نے ہیں جب یہ ہو جاتا یے تو پھر اس کی راہ میں کچھ بھی مزاحم نہیں ہو سکتا یہ پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہلا سکتا ہے یہ دریائوں کے رخ موڑ سکتا ہے اور یہ کائنات کو زیرو بم کر سکتا ہے۔ اس کی للکا سے سرِ گردوں کانپ اٹھتا ہے اس کی آواز سے لا مکاں میں بھونچال آجاتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ وہ عشق، عشقِ حقیقی ہو ایک ایسا عشق جس کی سب سے بڑی اور نادر مثال سیدنا بلال نے پیش کی تھی۔سیدنا بلال کا عشق چو نکہ محبوبِ خداسے تھا لہذ اس عشق کے راہ میں آزمائشیں اور رفعتیں اس کا فطری نتیجہ تھیں۔ صحرا کی تپتی ہو ئی ریت سینے پر رکھے ہو ئے گرم اور بھاری پتھر اور ہاتھ میں بے رحم کوڑے جو کھا ل ا دھیڑ کر رکھ دیتے تھے لیکن زبان سے تو صدا پھر بھی آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہی آ تی تھی۔ وہ عشق کیا تھا اور وہ مقام کیا تھا اس کا تعین تو میرا خدا ہی کر سکتا ہے یا سرکارِ دو عالم حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کر سکتے ہیں لیکن اقبال نے اس روح پرور منظر کو جس طرح خوبصورت الفاظ کے روپ میں ڈھالا ہے وہ بھی لاجواب ہے۔اذاں ازل سے تیرے عشق کا ترانہ بھی۔۔نماز اُس کے نظارے کا اک بہانہ بنی (ڈاکٹر علامہ محمد اقبال) عشق کا یہ لازوال جذبہ ہمیں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی ہو نے کے سبب عطا ہوا ہے کیونکہ دوسری قومیں عشق کے ایسے جذبات سے عاری ہیں۔ انسانوں سے عشق انسان کی سرشت میں ہے اور اس کے مظاہر ہم ہمیشہ سے دیکھتے چلے آئے ہیں۔ یقین کیجئے اگر جوہرِ عشق نہ ہو تا تو یہ دنیا فقط ریت اور گارے سے تعمیر شدہ ایک حسین و جمیل محل کی مانند ہو تی جس میں سوزو گداز کا کوئی گزر نہ ہو تا ۔یہ تو عشق ہے جس نے اس دنیا کو ایک نیا ولولہ، جوش اور رنگ عطا کر رکھا ہے اور اس کی دلکشی اور رعنائی میں بے پناہ ا ضافہ کر دیا ہے۔عشق کی تڑپ میں ہی تو اس دنیا کی دلکشی کا راز پنہا ں ہے اسی لئے تو اقبال نے کہا تھا کہ مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خدا وندی۔ صوفیائے کرام نے فنا فی اللہ کے نظریے کو اپنے عشق کی بنیاد بنا یا اور اس میں ایسے ایسے رنگ بھرے کہ دنیا عش عش کر اٹھی۔ طور پر حالتِ رقص میں آنے والا بھی تو ایک بشر ہی تو تھا اور انا الحق کا نعرہ لگانے والا بھی تو ایک فرد ہی تھا اور دونوں ہی رفعتوں سے ہمکنار ہو ئے ۔اگر انا الحق کے نعرے کے مقصود و معانی خدا بن جانا تھا تو پھر مولانا روم ،علامہ اقبال اور بہت سے دوسرے مشاہیر کبھی بھی حسین منصور حلاج کی مدح سرائی نہ کرتے ۔ حسین منصور حلاج کا مقصد دنیا کو یہ بتا نا تھا کہ خدا میرے من میں بس رہا ہے۔ اس کے جذب و مستی کی اسی کیفیت کے ا ظہار کو انا الحق کے نام سے پکارا جاتا ہے۔قرآن میں تو خدا خود اعلان کرتا ہے کہ میں اپنے بندے کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہوں اورجب قربت اور موجودگی کا یہی پیمانہ ہے تو پھر حسین منصور حلاج کو کیا مشکل پیش آگئی تھی کہ وہ برسرِ منبر انا الحق کا نعرہ بلند کر کے سزا کا حقدار ٹھہرتا ۔انا الحق در اصل اس کے عشق کی انتہا تھی وہ خدا کو اپنے من کے اندر سمو کر خود پر قابو نہیں رکھ پایا تھا ۔خدائی قربت کے ایسے مسحور کن لمحوں نے اس سے صبرو تحمل اور رازداری کی طاقت چھین لی تھی ا ور خوشی کی اس انتہا کو وہ اپنے من میں سنبھال کر رکھ نہ سکھاتھا اور اسے دنیا بھر میں آشکار کر دیاتھا۔ اہلِ جہاں تک اس کے عشق کی داستان کا مکھڑا انا الحق کے نعرے کی صورت میں پہنچا تھا جس نے جہاں کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا تھا۔ عشق کی اس آشکاری کی سزا ضروری تھی اور اے سزا دی گئی لیکن یہی سزا اس کا انعام بن گئی ۔حسین منصور حلاج کی پھانسی رازِ عشق کو طشت از بام کرنے کی سزا ضرور تھی لیکن اس نے یہ سزا خوشی سے قبول کی تھی یہی وجہ ہے کہ اس کا عشق رہتی دنیاتک زندہ ،پائندہ اور تابندہ ہے۔ آئیے اس ساری کیفیت کا احوال عشق کے ایک بہت بڑے داعی کی زبان سے سنتے ہیں تا کہ دلوں میں پلنے والے شکوک و شبہات اور توہمات اپنی موت آپ مر جائیں۔ سلطان باہو نے ان لمحوں کوجس خوبصورت انداز سے بیان کیا ہے جی نہیں چاہتا کہ اس سے آپ کو محروم کروں۔الف اللہ چنبھے دی بوٹی۔۔۔۔من وچ مُر شد لائی ھو اندر بوٹی مشک مچایا۔۔۔۔۔جا پھُلن تے آئی ھو تاریخ کے اوراق کا اگر گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو انسان ورطہِ حیرت میں گم ہو جاتا ہے کہ آخر ذولفقار علی بھٹو کی ذات میں وہ کون سی ایسی کشش تھی جو لوگوں کو جان جیسی متا عِِ بے بہا لٹانے پر مجبور کر رہی تھی۔ پھا نسی گھاٹ سجا ئے گئے اور جیالوں نے سرِ دار پھانسی کے پھندوں کو چوم کر ا پنے گلے کا ہاربنا یا۔ کسی انسان کی خاطر پھانسی گھاٹ پر حالتِ رقص میں پھانسی کے پھندوں کو چومنا شائد انسانیت نے پہلی بار دیکھا تھا۔ مذ ہب ، دھرتی ماں اور وطن کے نام پر پھا نسیاں اور سزائیں تو انسان ازل سے بھگتا آیا ہے ۔ پیغمبروں اور رسولوں کے لئے جان دینا بھی اس کے لئے سعادتِ دین و دنیا بنا رہا ہے لیکن اپنے جیسے پیکرِ ِ خاکی کی محبت کی خاطر جان کا نذرانہ دے دینا اس کے لئے بالکل اچھنبے اور حیرانی کی بات تھی۔ محبت کی یہ وہ وہ انتہا ہے جس تک پہنچنے کی سعادت صرف ذولفقار علی بھٹو کا مقدر بن سکی اور اس راہ میں وہ شخصیت جس نے بڑی جراتوں اور بسالتوں کا مظاہرہ کر کے زندہ ہے بھٹو زندہ ہے کا نعرہ بلند کیا تھا اور اس پر آ ہنی چٹان کی مانند ڈٹ گئی تھیں وہ مادرِ جمہوریت بیگم نصرت بھٹو کی ذات تھی ۔ ہو سکتا ہے کہ میرے اندازِ فکر سے کچھ لوگ چیں بچیں ہو ں اور اختلافِ رائے کریں لیکن میں نے تو اپنی دانست میں گلاب کو گلاب،چاند کو چاند، خوشبو کو خوشبو اور ذولفقار کو ذولفقار ہی لکھا ہے۔ عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں۔۔۔ کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے (ڈاکٹر علامہ محمد اقبال)تحریر : طارق حسین بٹ(چیرمین پاکستان پیپلز ادبی فورم)