پاکستان میں بعض حلقے ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ بھارت کو ایم ایف این کا درجہ دینے سے مقامی صنعت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ تاہم معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وہ ان خدشات سے متفق نہیں ہیں۔ ڈبلیو ٹی او، یعنی ورلڈ ٹریڈ آڑگنائزیشن کے قیام سے پہلے بھی دنیا میں میں تجارتی سرگرمیوں اور تجارتی ماہدوں پر عمل درامد کرانے کیلیے موسٹ فیورٹ نیشن کا کردار اہمیت کا حامل تھا، آج بھی اسکی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ایم ایف این کے تحت ڈبلیو ٹی او کے ایک سو اڑتالیس ممبران کو ایک ہی جیسے سلوک کا پابند بنایا گیا ہے۔ جس کے مطابق درمدات و برامدت سے متعلق اشیا کی مخصوص فہرست تیار کرنا ہیجن کا مقصد ان پر ٹیکسوں کی شرح میںدونوں ممالک سے کی جانب سے رعایت دینا۔ کچھ چیزوںپر مخصوص ڈیوٹی کا لگانا اور کچھ پر مکمل ریلیف دینا ہو تا ہے۔ جنوبی ایشیا کے روایتی حریف پاکستان اور بھارت کے تعلقات شروع سے اتار چڑھا کا شکار رہے ہیں۔ یہ پہلی بار ممکن ہوا ہے کہ پاکستان نے بھارت کو مو سٹ فیورٹ نیشن قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس نا صرف ملکی زراعت و صنعتوں کو فائدہ ہو گا معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاک بھارت سے باہمی تجارت کو قانونی شکل دینے اور نان ٹیرف بیریئر ختم کئے جانے سے دونوں ممالک کے مابین تجارتی حجم میں اضافہ ہوگا اور دونوں ممالک کے عوام کو سستی اشیا دستیا ہوں گی اس وقت دونوں ممالک کے درمیان باہمی ضابطہ تجارت ساڑھے تین ارب پچاس کروڑ ڈالر سے کم ہوکر ایک ارب اسی کروڑ ڈالر رہ گئی ہے تاہم دیگر ممالک کے ذریعے ان ڈائریکٹ تجارت اس سے دگنا ہے۔ پاک بھارت تجارت سے پاکستانی تاجروں کو بڑی مارکیٹ مل سکتی ہے پاکستان اور بھارت کے مابین تجارت سے ریجنل ٹریڈ کو بھی فروغ حاصل ہوگا اور مستقبل میں یہ ٹریڈ چھ ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔