نومبر میں پاکستان کے سیاسی منظر پر تیزی آنے کا امکان

leaders

leaders

نومبر کے تیسرے ہفتے سے پاکستان کی سیاسی منظر پر تیزی آنے کا امکان ہے اور حکومتی اتحاد اور اپوزیشن جماعتوں نے سیاسی آلے تیز کرنے شروع کر دئیے ہیں اور اس سال موسم سرما جلسے، جلوسوں اور دھرنوں کی نظر ہوگا جس سے شاید اسلام آباد بھی محفوظ نہ رہے۔
ذرائع کے مطابق کئی سیاسی جماعتیں نئے اتحاد بنانے کے لئے کوشاں ہیں تو دوسری طرف حکومتی اتحادی بھی آنے والے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں ،آنے والے 90روز میں واضع ہوجائے گا کہ مارچ 2012 میں سینٹ کے الیکشن ہوپاتے ہیں یا نہیں ۔ الیکشن ہونے کی صورت میں حکمران اتحاد پی پی پی ،ایم کیو ایم ،اے این پی ، مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ ف اور آزاد اراکین اسمبلی کی شکل میں اکثریت حاصل کر لے گا ، دوسری طرف اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن نے عوامی تحریک کے ذریعہ حکومت کی تبدیلی اور صدر زرداری کو ہٹھائے جانے میں ناکامی کی صورت میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے استعفی دینے کے آپشن کے ذریعے الیکشن روکنے کی کوشش کی جائے گی۔
ذرائع کے مطابق سیاسی افق پر تیزی سے شہرت پانے والی تحریک انصاف جس نے مینار پاکستان پر شاندار جلسے سے سیاسی حلقوں میں ہل چل پیدا کردی ہے اس کی تمام توجہ کم سے کم چار کروڑ ووٹرز کی ریجسٹریشن اور بڑے جلسوں اور تنظیمی سرگرمیوں پر ہے اور جماعت کے مطابق پارٹی کے پش نظر سینٹ کے الیکشن نہیں۔ تحریک انصاف کی مرکزی مجلس عاملہ نومبر کو اسلام آباد میں اپنے اجلاس اپنے پروگرام کو حتمی شکل دیں گے۔
مذہبی سیاسی جماعتیں پھچلے چند ماہ سے متحدہ مجلس عمل کو نئی شکل میں لانے کے لئے کوشاں ہے مگر جماعت اسلامی کے موجودہ امیر سید منور حسن اور جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل ائرحمان میں اختلافات دور نہیں ہو پائے جماعت اسلامی کو تحریک انصاف کی شکل میں شاید نیا اتحادی مل جائے۔ بلوچ قوم پرست جماعتیں اور سندھی قوم پرست جماعتیں مسلم لیگ ن کے ساتھ جاسکتی ہیں اور آئندہ دو ماہ میں مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف اس کو حتمی شکل دے دینگے دیکھنا یہ ہے اس سرد موسم میں کون کتنی گرمی لاپائے گا اور اس کے نتیجے میں برف باری میں کس کو پسینہ آئے گا۔