ہیروز یا قومی مجرم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

corruption

corruption

جب بدعنوانی، لوٹ مار اور کرپشن کا ناسور کسی معاشرے کی رگ وپے میں سرایت کرجائے تو قومیں اپنی اخلاقی ساخت شناخت اور مرتبہ و مقام کھو بیٹھتی ہیں اور تباہی و بربادی ان کا مقدر ہوجاتی ہیں،بدقستمی سے آج ہماری پوری قوم کو اسی تباہی وبربادی کا سامنا ہے،کرپشن کے سرطان نے پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور ہماری وہ اسلامی روایات، اخلاقی قدریں اور قومی تشخص جو کبھی ہماری وجہ شناخت و افتخار ہوتا تھا اورجس نے ہمیں دنیا میں عزت و وقار سے سر اٹھاکر جینے کا حوصلہ دیا تھا،آج ندارد ہے،حال یہ ہے کہ اِس بیماری نے ہماری اخلاقی قدروں اور معاشرتی روایات کو ہی بدل ڈالاہے،دیانت و ایمانداری کی جگہ بے ایمانی اور بدعنوانی نے لے لی،آج جو جتنا بڑا بے ایمان،چور،ڈاکو اور لیٹرا ہے وہ معاشرے میں اتناہی صاحب عزت وحیثیت ہے،جبکہ محنت وایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل ہے،یہی وجہ ہے کہ ہر طرف کرپشن،لوٹ،مار اور بدعنوانی کا دور دورہ ہے، اوپر سے لے کر نیچے تک ہر آدمی اِس بیماری میں مبتلا اور اپنی اپنی حیثیت کے مطابق برابر کا شریک ہے، اسی وجہ سے آج دنیا ہمیں ایک بدعنوان،بے ایمان اور ناقابل اعتبار قوم کے نام سے جانتی ہے۔ جب قومی زندگی میں اِس قسم کی صورتحال پیدا ہوجائے اور ارباب اقتدار سے لے کر ہر ادارے کے ذمہ داران بشمول قوم اِس موذی مرض میں مبتلا ہوجائے تو کھیل اور تفریح جیسے صحت مند شعبے کیونکر اِس سے اپنے دامن کوپاک و صاف رکھ سکتے ہیں،لہذا اِس تناظر میں پاکستانی ٹیسٹ کپتان سلمان بٹ،فاسٹ بولر محمد آصف اور محمد عامرکو برطانوی عدالت سے دھوکہ دہی اور بدعنوانی کے جرم میں ملنے والی سزائیں بہت معمولی سی بات نظر آتی ہے،اِس مقدمے میں وسطی لندن کی سدک کران کورٹ کے جسٹس جیریمی کک نے فیصلہ سناتے ہوئے سلمان بٹ کو ڈھائی سال،محمدآصف کو ایک سال اور محمد عامر کو 6ماہ قیدکی سزاسنائی اور بالترتیب 30 ہزار 937،8 ہزار 120اور 9ہزار 389پونڈ جرمانہ بھی عائد کیا،برطانوی جج کا کہنا تھا کہ کہ آپ لوگوں نے کرکٹ کے کھیل کے وقار کو نقصان پہنچایا،آپ کے اعمال کی وجہ سے کرکٹ بدنام ہوئی اور کرکٹ پر سے لوگوں کا اعتماد اٹھا، جج نے سلمان بٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ تمہاری سزا میں نرمی کی درخواست مسترد کی جاتی ہے،تمہارا کیریئر اب ختم ہو چکا ہے،تم بطور کپتان سب کیلئے مثال تھے،تمہارا جرم بڑا ہے،جج نے سلمان بٹ کوپی سی بی اور پاکستان کے وقار کو نقصان پہنچانے اور محمد عامر کوکرپٹ کرنے کے ساتھ مظہر مجید کے ساتھ میچ فکسنگ کا منصوبہ ساز بھی قرار دیا،جج نے محمد آصف کو بھی جرم میں برابر کا شریک قرار دیا۔ جبکہ محمد عامر کی جانب سے غلطی کے اعتراف کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اسے بہادری کے مظاہرے سے تشبہ دی اور خوش آئند قرار دیا،عدالت نے کھلاڑیوں کے ایجنٹ مظہر مجید کو بھی 2 سال 8ماہ قید کی سزا سنائی اور اسے ہر سطح پر کرپشن میں ملوث ہونے اور سپاٹ فکسنگ کا سب سے بڑا مجرم قراردیا اور تینوں کھلاڑیوں کو مقدمہ پر ہونے والے اخراجات اداکرنے کا بھی حکم دیا،برطانوی عدالت کے 9 صفحاتی فیصلے میں پی سی بی کے کردار پر کڑی تنقید کے ساتھ اسے مسخروں کی ٹیم بھی قرار دیاگیا،یہ درست ہے کہ کھیل کے مختلف شعبوں میں جواریوں کی مداخلت کوئی نئی بات نہیں ہے،یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا کی تقریبا ہر کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی جوئے میں ملوث رہے ہیں،البتہ پہلی بارتین پاکستانی کھلاڑیوں اور ایک ایجنٹ کو قید اورجر مانے کی سخت سزائیں سنائی گئی ہیں،اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِن کھلاڑیوں پرجرم ثابت ہوگیاہے،ورنہ حقیقت یہ ہے کہ کرکٹ سمیت کئی کھیل کے کھلاڑی مختلف قسم کی بدعنوانیوں میں ملوث رہے ہیں۔ قارئین محترم !کھلاڑی ملک کے سفیر ہوتے ہیں،ان کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ بیرون ملک اپنے بہترین کھیل اور اچھے کردار کا مظاہرہ کرکے اپنے ملک کی عزت و وقار کا تحفظ کریں،لیکن پاکستان کے اِن تینوں کرکٹرز کی کرپشن کی وجہ سے پوری قوم کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے، برطانوی عدالت کی جانب سے پاکستانی کھلاڑیوں کے خلاف فیصلے نے قوم کو شدید صدمے سے دوچارکردیاہے،برطانوی عدالت کے جج کے بقول اِن کھلاڑیوں نے کرکٹ کے وقار کو ہی نقصان نہیں پہنچایا بلکہ کرکٹ کو بھی بدنام کیا ہے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی کھلاڑیوں کے اِس عمل سے صرف کرکٹ ہی نہیں،دنیا بھر میں پاکستان اور پاکستانی قوم کی عزت ووقار کوبھی شرمناک دھبہ لگایا ہے،وہ کھیل اور کھلاڑی جس نے ماضی میں مختلف مرحلوں پراعزازات حاصل کرکے قوم کا سرفخر سے بلندکیا تھا،آج اِس واقعے کی وجہ سے شرمسارہے،بلاشبہ 3نومبر کا دن پاکستان کرکٹ کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے اور سلمان بٹ،محمد آصف اور محمد عامر اِس سزا کے مستحق اور پوری قوم کے مجرم ہیں،جنہوں نے صرف چند ٹکوں کے عیوض ملک و قوم کے وقار کا سودا کیا،اب اِن کا اعتراف جرم،قوم سے معافی اور ندامت کے چند آنسو کیا اِس شرمناک عمل کا تدارک کرسکتے ہیں۔  امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان پہلے ہی دنیا میں کرپشن کے ریکارڈ قائم کررہا ہے،اہل اقتدار کے ہاتھوں قومی خزانے کی لوٹ مار، وسائل کی بندر بانٹ اور ملکی اداروں کی تباہی پر نوحہ کناں قوم کیلئے کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کا یہ شرمناک طرز عمل کسی تازیانے سے کم نہیں،وطن عزیز اہل اقتدار اور بعض سیاستدانوں کی کرپشن کی وجہ سے عالمی سطح پر پہلے ہی بدنام تھا،رہی سہی کسر قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں نے پوری کر دی،یہی وجہ ہے کہ ملک بھر کے عوامی حلقوں کی طرف سے اِن کھلاڑیوں کی بھرپور مذمت کی جا رہی ہے،لیکن ہمارے نزدیک اصل مسئلہ سزا کانہیں بلکہ اِس بات کا ہے کہ پاکستان کرکٹ کے صرف کھلاڑی ہی جوئے میں ملوث نہیں ہوئے بلکہ جہاں پاکستان کرکٹ بورڈ بالواسطہ طور پر مذکورہ کھلاڑیوں کے جرائم میں برابر کا شریک ہے،وہیں ہماری حکومت بھی پاکستان کی حرمت اور عزت بچانے کیلئے غفلت کی مرتکب ہوئی ہے، ویسے بھی یہ بات زبان زد عام ہے کہ ملک کا اقتدار اعلی اقرباپروری،لوٹ مار اور بدعنوانی میں ملوث ہے،اِس پس منظر میں قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں نے بھی وہی کام کیا ہے جو ارباب اقتدار کی ٹیم کررہی ہے،بس فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے بددیانتی کے مرتکب ہوئے تو دوسرے وطن عزیز کی بدنامی کا باعث بنے،اِس لیے ہماری رائے میں جس طرح حکومت نے اپنے دور اقتدار میں کرپٹ اور نااہل افراد کو قومی اعزازات سے نوازا ہے،بالکل اسی طرح قومی عزت ووقار کیلئے ذلت و رسوائی کا باعث بننے والے اِن تینوں کھلاڑیوں کیلئے بھی کسی نہ کسی اعزازکا اعلان کرے۔ رہی بات یہ کہ پاکستان کرکٹ بورڈ مسخروں کی ٹیم ہے،تو بلاشبہ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ سابق چیئرمین کا دور کرکٹ بورڈ میں مسخرے پن کا دور تھا،موجودہ صورتحال میں یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ کرکٹ بورڈ سمیت ہرادارے میں سیاسی بنیادوں پر مخصوص افراد کو نوازنے کیلئے تقرریاں نہیں ہونی چاہیں،بلکہ تمام فیصلے میرٹ پر ہونے چاہیں،سابق چیئرمین اعجازبٹ کی تقرری سیاسی بنیادوں پر کی گئی تھی،جس کا خمیازہ آج کرکٹ ٹیم کے انتشار اور میچ فکسنگ کی صورت میں سامنے آیا ہے،اگر ان کی جگہ میرٹ پر آنے والی کوئی شخصیت موجود ہوتی تو بورڈ میں ڈسپلن ہوتا اور کھلاڑیوں کی سختی سے مانیٹرنگ بھی ہوتی،اِس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ اصل انکوائری پاکستانی کرکٹ بورڈ اور ٹیم کے ان آفیشلز کے خلاف بھی ہونی چاہیے جو اس وقت ٹیم سے منسلک تھے،کیونکہ ٹیم منیجمنٹ کو یہ بات اچھی طرح سے معلوم تھی کہ اس کی کرکٹرز کو دی گئی وارننگ کے باوجود مظہر مجید کرکٹرز سے ملتا رہا،جبکہ کرکٹ بورڈ خود یہ اعتراف کرتارہا کہ ایجنٹ کے روپ میں مشکوک لوگوں سے دور رہنے کیلئے کرکٹرز کو متنبہ کیا گیا،لیکن اِس کے باوجود ان کے رابطے برقرار رہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹیم منیجمنٹ کیا کرتی رہی؟ سکیورٹی پر مامور افراد کہاں تھے؟ کیوں اس وقت کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا گیا؟ جبکہ جسٹس قیوم کمیشن کی سفارشات میں پاکستان کرکٹ بورڈ سے کہا گیا تھا کہ وہ کرکٹرز کے اثاثوں پر نظر رکھے مگر کبھی اِن سفارشات پر کوئی توجہ نہیں دی گئی،بلکہ ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والے کرکٹرز چہیتے بن کر کھیلتے رہے اور کرکٹ بورڈ سب اچھا ہے کی پالیسی پر چلتا اپنی کرسیاں بچاتا رہا،یہ نکتہ بھی توجہ طلب ہے کہ کرکٹ بورڈ پہلے تو اِن کرکٹرز کی کھل کر حمایت کرتا رہا مگربعد میں پیچھے ہٹ گیا،اگر سابق چیئرمین اعجازبٹ اِن کھلاڑیوں کے خلاف کارروائی کرتے اور انہیں سزادے دی جاتی تو عالمی سطح پر اِس طرح پاکستان کی جگ ہنسائی نہ ہوتی اور یقینا آج صورتحال مختلف ہوتی،مگر سابق چیئرمین نے اِن کرکٹرز کے خلاف خود فوری کارروائی نہ کرنے کا اعلان کر کے اِن قومی مجرموں کی سرپرستی کی،اِس تناظر میں خود کرکٹ بورڈ اور منیجمنٹ کے ہوتے ہوئے سپاٹ فکسنگ کے اسکینڈل کاسامنے آنا پاکستان کرکٹ بورڈ کی مکمل ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے،لہذا پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اور دیگر عہدیداروں کے کرداراور کارکردگی کا عدالتی جائزہ لینااور بھی زیادہ ضروری ہو گیا ہے۔ دوسری طرف برطانوی عدالت کی سزانے محب وطن حلقوں کو پاکستانی قوم کے اخلاقی بحران کے بارے میں ایک بار پھر تشویش میں مبتلا کردیاہے،اِس صدمہ انگیز سانحے نے ہمارے سیاسی،سماجی اور اخلاقی نظام کے بارے میں نئے سوالات پیدا کردیے ہیں،راتوں رات دولت مند بننے کی دوڑ نے حلال وحرام کی تمیز ختم کردی ہے اور معاشرے میں یہ تصور پختہ تر ہوگیا ہے کہ جب تک کوئی شخص کسی بدعنوانی اور جرم میں پکڑا نہ جائے تو وہ باعزت قرار نہیں پاتا،جب لوگوں میں اپنے ضمیر کو جوابدہی اور رب کی پکڑ کا احساس ختم ہوجاتا ہے توقوم اخلاقی زوال اور معاشرتی برائیوں میں مبتلا ہوکر تباہ ہوجاتی ہے،آج ہمیں کچھ اسی قسم کی صورتحال کا سامنا ہے،بدعنوانی اور بے ایمانی کو جائز اور اپنا حق سمجھنے کے تصورسے کرپشن کا ناسور ہمارے معاشرے میں سرایت کرچکا ہے،یہ ناسور ہماری اخلاقی قدروں اور معاشرتی و سماجی ڈھانچے کو کھوکھلا کرکے ہمیں دنیا کے سامنے ایک بدعنوان اور بے ایمان قوم کے طور پر پیش کررہاہے،لہذا ضرورت اِس امر کی ہے کہ ملک سے کرپشن نماکلچر کے فوری خاتمے،اِس کے پس پردہ ہونے والے نقصانات اور آئندہ آنے والی نئی نسلوں پر پڑنے والے برے اثرات کے تدارک کیلئے دیر پا اور پائیدار لائحہ عمل ترتیب دیا جائے،لیکن یہ تب تک ممکن نہیں جب تک کہ ہم اپنے معاشرے میں خیروشر کے اصل معیارکو زندہ کرکے اس کا ہر شعبہ زندگی میں اطلاق نہیں کرتے۔ تحریر : محمد احمد ترازی