دو روز تک جاری رہنے والی سترہویں سارک کانفرنس بلڈنگ بریجز کے عنوان سے جاری ہونے والے ایک اعلامیہ کے ساتھ ہی اختتام پزیر ہوگئی ہے جس کے یقینا عنقریب مثبت نتائج بھی سامنے آئیں گے اِس کانفرنس کے موقع پر اپنی نوعیت کے دوواقعات ایسے رونماہوئے جن کی وجہ سے اِس کانفرنس کی اہمیت اور افادیت میں چار چاند لگ گئے ہیںاِن میں سے ایک کا ذکر ہم ابھی کررہے ہیں اور دوسرے کا اگلی سطور میں کریں گے یعنی پہلا یہ کہ مالدیپ میں17ویں سارک سربراہ کانفرنس کے موقع پر پاک بھار ت وزرائے اعظم سیدیوسف رضاگیلانی اور ڈاکٹر منموہن سنگھ کے مابین ساحل سمندر پرشنگریلا ریزارٹ کے جاداریستوران کے ایک خوبصورت ترین کاٹج میں 65منٹ تک جاری رہنے والی اپنی نوعیت کی وہ اہم ترین ملاقات ہے جس کے بارے میں یہ خیال کیاجارہاہے کہ اِس طویل ترین ملاقات میں پاک بھارت وزرائے اعظم نے کئی ایسے اہم نکات پر بھی 45منٹ تک علیحدگی میں گفتگو کی جو ایک دوسرے کو قریب ترلانے میں اہمیت کے حامل ہوں گے اور اِن کے ثمرات مستقبل قریب میں دونوں ممالک کے لئے مثبت اور تعمیری اثرات لئے ہوئے سورج کی روشن کرنوں کی طرح ضرور نمودار ہوں گے اور یہی وہ نکات ہوں گے جن سے خطے میں دائمی امن و استحکام قائم ہو سکے گا اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے اتنے قریب تر ہوجائیں گے جیسے دو انگلیاں ہوتی ہیں۔ اگرچہ یہ پاک بھارت وزرائے اعظم سیدیوسف رضاگیلانی اور ڈاکٹر منموہن سنگھ کی ملاقاتوں کو دونوں ممالک سمیت عالمی میڈیا بھی قدر کی نگاہ سے دیکھ رہاہے اور اِسے ہر لحاظ سے دوایٹمی ممالک میں پائے جانے والے جنگی جنون اور آپس کی چپ خلش کو کم یا ختم کرنے کے لئے بھی اہم قرار دے رہا تووہیں پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کے اِس عزم و ہمت کو بھی خصوصی اہمیت دیتے ہوئے اپنے یہاں بحث و مباحثوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں جس میں دونوں نے واضح اور دوٹوک الفاظ میں تہیہ کیاہے کہ دونوں ممالک تمام سطح پر اپنے رابطے اور بنیادی مسائل بالخصوص کشمیر ،دہشت گردی، سرکریک، سیاچن ، پانی اورتجارت سمیت ہر معاملے پر بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کریں گے بلکہ اِس موقع پر دونوں ممالک کے وزرائے اعظم نے دوطرفہ تعلقات کی تاریخ میں ایک نیا اور سنہیراباب لکھنے کا اعلان ہی نہیں کیا بلکہ اِس عزم کا بھی اظہارکیاکہ خطے میں حوصلہ افزااورفوری نتائج کے حصول کے خاطر اِس نیک مقصد میں ایک لمحہ بھی ضیائع کئے بغیر پاک بھارت کو ایک نئے ولولے اور جذبے کے ساتھ اِس کام کو شروع کرناہوگاہمارے وزیراعظم سیدیوسف رضاگیلانی نے خوشگوار ماحول میں بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ سے اپنی ہونے والی ملاقات میں موقع کا بھرپورفائدہ اٹھاتے ہوئے اِنہیںجلدازجلد پاکستان کے دورے کی دعوت دے کر گرماگرم لوہے پر ایک زور دار ضرب لگادی جس کے جواب میں بھارتی میڈیا لکھتا ہے کہ بھارت کے وزیراعظم ہاوس کے ذرائع کے مطابق وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے اپنے مجوزہ دورہ پاکستان کے لئے کی جانے والی تیاریوں کی رپورٹ طلب کرلی ہے جو بھارتی وزیراعظم ڈاکٹرمن موہن سنگھ پاکستان کا دورہ آئندہ سال فروری میں کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کے بارے میں بھارتیوں کا خیال یہ ہے کہ اِس موقع پر کئی انتہائی اہم اور ایسے اعلانات بھی متوقع ہیں جن سے پاک بھارت کے تعلقات چٹانوں سے بھی زیادہ مضبوط ہو جائیں گے۔ جبکہ یہاں یہ امر ایک قابل تعریف اور حوصلہ افزاہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم سیدیوسف رضاگیلانی سے ملاقات کے دوران بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ جو ایک دوراندیش اور انسانیت کی قدرکرنے والے انسان ہیں انہوں نے وزیراعظم پاکستان سیدیوسف رضاگیلانی کومخاطب کرکے کہاکہ مسٹر گیلانی آپ امن کے علمبردار ہیںجس سے یہ واضح ہواکہ بھارتی وزیراعظم پاکستان کی خطے میں امن کی کوششوں کو تسلیم کرتے ہیں مگر یہ اب تک اِس کا اظہار کسی بھی فورم پر نہیں کرسکے تھے اب جب کہ اِن کے ہاتھ میں یہ موقع آیاتو انہوں نے فورااِس بات کا کھل کراظہارکردیا جو اِن کی اعلی ظرفی ہے تاہم دوسری جانب ٹائمزآف انڈیاکے مطابق یہ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ڈاکٹر من موہن سنگھ کی جانب سے گیلانی کو امن کا علمبردار کہنا یہ بھی بھارتیوں کو برداشت نہ ہوااور بھارت کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت بی جے پی نے اپنے وزیراعظم ڈاکٹرمن موہن سنگھ پر شدیدنقطہ چینی کرتے ہوئے اِن کے کہے ہوئے الفاظ پر سخت ردِ عمل کا اظہار کیااور اِسے انتہائی مضحکہ خیز قراردیاہے جبکہ بی جے پی کے ایک جذباتی اور پاک بھارت قربت اور دوست سے خائف رہنمااور سابق وزیرخارجہ یشونت سہنا(جنہوں نے پاک بھارت کے درمیان دوریاں پیداکرنے کے انگت اقدامات تو ضرورکئے مگر اِن کے مابین کبھی دوستی اور اچھے تعلقات بڑھانے جیسے رویوں اور منصوبوں سے ہمیشہ اجتناب کرتے رہے جس کا نتیجہ یہ رہاکہ جب تک یہ وزیرخارجہ رہے پاکستان اور بھارت کے تعلقات کشیدہ سے کشیدہ تر ہی رہے ایسے کبھی نہ ہوئے جیسے آج ہیں) نے ایک ٹی وی چینل سے بات چیت میں پاک بھارت وزرائے اعظم ملاقات کو ماضی قریب میں مصر کے شہرشرم الشیخ میں ہونے والی ملاقات کا جس انداز سے تذکرہ کرتے ہوئے اِس کو بے مقصداور تباہ کن کہاوہ اِن کی کم عقلی اور پاگل پن کی علامت کوظاہرکرتا ہے کیوں کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مصر کے شہرشرم الشیخ میں پاک بھارت وزرائے اعظم کی بامقصد ملاقات ہی کا نتیجہ ہے کہ آج پاکستان اور بھارت دونوں مقناطیسی کشش کی طرح اتنے قریب آگئے ہیں کہ اگلی ملاقات کے بعد پھر اِنہیں کوئی جدانہیں کرسکتاہے اور یشونت سہناکہہ رہے ہیں کہ مصر کی ملاقات بے مقصدتھی یشونت کا یہ بھی اعتراض ہے کہ ڈاکٹر من موہن سنگھ نے گیلانی کو امن کا علمبرار کیوں کہا۔ کیا موہن کو یہ بھی پتہ نہیں ہے کہ پوری دنیا جبکہ راقم الحرف کا خیال یہ ہے کہ صرف امریکا اور افغانستان تو کہہ رہے ہیںاور جنہیں یشونت پوری دنیا کہہ رہے ہیں کہہ رہی ہے کابل میں بھارتی سفارتخانے پر حملہ آئی ایس آئی کی ایماپر کیا گیا لیکن ایک بھارتی وزیراعظم ڈاکٹرمن موہن سنگھ ہیں کے انجانے بنے ہوئے ہیں اور پاکستان سے ڈائیلاگ جاری رکھے ہوئے ہیں اور اِسے امن کے علمبرادر ہونے کا سرٹیفکٹ بھی دے رہے ہیںایک طرف مالدیپ میں منعقد ہونے والی سترہویں سارک کانفرنس کے موقع پر پاک بھارت وزرائے اعظم کی خوشگوار ملاقات کے دوران دونوں ممالک کے درمیان نئی تاریخ کے سنہرے باب رقم کرنے کا ارادہ ظاہر کیاگیاتو وہیںپاکستان کے خلاف ایک ایسی سازش کا بھی اِس اعلان کے ساتھ انکشاف ہواجس کے مطابق چار ممالک کے سربراہان حکومت ماحولیات کے حوالے سے اپنا ایک الگ گروپ بنانے کی تیاری میں محض اِس بناپر مصروف ہیں کہ اِن کے اِس اقدام سے عظیم ترعلاقائی تعاون پر غورکیاجاسکتاہے اِس نئے بلاک میں جوچار ممالک شامل ہوں گے ان میں سرفہرست بھارت، نیپال، بنگلہ دیش اور بھوٹان ہیں جن کے سربراہان مملکت نے اپنے خطے وممالک میں ماحولیاتی تبدیلیوں خصوصا مشرقی ہمالیہ پر اِس کے اثرات کے حوالے سے اپنا یہ مشترکہ بلاک تیار کرنے کا اعلان کرکے ایک ایسا دھماکہ کردیاہے کے جس میں پاکستان اور چین کو دیدہ و دانستہ طور پر مستردکر دیاگیاہے جبکہ دنیابھر میں ماحولیات سے متعلق کام کرنے والے اداروں ، این جی اوز اور ماہر ین ماحولیات نے چار ممالک کا ماحولیات کے حوالے سے بنائے جانے والے نئے بلاک پر سخت الفاظ میں نکتہ چینی کرتے ہوئے اپنے شدید ردعمل کا اظہار کچھ یوں کیاہے کہ پاکستان اور چین یہ دوایسے ممالک ہیں جہاںبڑے دریاشروع ہوتے اور روانی سے بہتے ہیں ماحولیات کے حوالے سے اہمیت کے حامل اِن ممالک کو نئے بلاک میں شامل نہ کرکے بھارت، نیپال، بنگلہ دیش اور بھوٹان کس ماحولیاتی تحفظ کا منصوبہ تیار کر رہے ہیں۔ ماہرین اِس بات پر بھی تشویش کر رہے ہیں کہ کہیں اِس بلاک کا مشورہ بھارت کی جانب سے تو نہیں آیاہے جس نے دانستہ طور پر ایسا بلاک تیار کیا جس میں پاکستان اور اِس کے جگری دوست چین کو مسترد کردیاگیاہے حالانکہ ماہرین کا اِس بات پر زور ہے کہ پاکستان اور چین کے بغیر ماحولیات کا کوئی بھی منصوبہ صاف وشفاف طریقے سے تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا اِس لئے کہ تین بڑے دریاانڈس ، برھمپتراورمیکانگ چین سے شروع ہوتے ہیںجبکہ دریائے سندھ پاکستان میں بہتاہے اِس لحاظ سے ماحولیات کی تحفظ کے حوالے سے چار ممالک کا بننے والا نیابلاک کامیاب نہیں ہوسکے گاجب تک اِس بلاک میں پاکستان اور چین کو شامل نہ کیاجائے اگر یہ بات جاننے کے بعد بھی یہ بلاک بنتاہے تو پھر اِس بات کا بھی یقین کرلیاجائے کہ یہ بلاک محض بلاک ہی رہے گا اور پھر اِس بلاک میں شامل بھارت کے علاوہ اور دوسرے ممالک پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوجاتی ہے کہ وہ اِس بات کا بھی پتہ لگائیں گے اِس کے پیچھے کس کے کیا سیاسی اور جغرافیائی فوائد پوشیدہ ہیں اور آخر میںہم مالدیپ میں پاک بھارت وزرائے اعظم کی مثبت مگر تعمیر ی انداز سے ہونے والی ملاقات کے حوالے سے یہ شعر عرض کرکے اجازت چاہیں گے کہ پاک وبھارت کا یقینا ہے مبارک فیصلہ حملہ آور اب نہ ہوگاکوئی تنصیبات پروادئی کشمیر پر ہے امن کا دارومدار آج ہر اِک نکتہ ور ہے متفق اِس بات پراور اِس کے ساتھ ہی سارک کانفرنس میں شامل ممالک یہ بھی تہیہ کریں جس سے متعلق شاعر نے کہاہے کہ یہ ذمہ داری ہے سارک کے سب ممالک کی جہاں میں پھیلنے پائیں نہ ایٹمی ہتھیارسِتم تو یہ ہے کہ انساں ہے دشمنِ ِ انساں یہ سانحہ ہے کہ دنیا ہے برسرِ پیکار۔ تحریر : محمد اعظم عظیم اعظمazamazimazam@gmail.com