صف بندی

پاکستانی سیاست پچھلے کئی عشروں سے دو دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے ۔ ایک

Pakistan Elections

Pakistan Elections

طرف ذولفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی ہے اور دوسری طرف ملک میں دائیں بازو کی ساری قابلِ ذکر سیاسی جماعتیں ہیں ۔ان ساری جماعتوں کے اتحاد کو اینٹی بھٹو ووٹ سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے۔اس فکر کے امام جماعت اسلامی کے وہ دانشور ہیں جنھیں پی پی پی کی فکری سوچ سے خود ساختہ اسلام کو خطرہ لاحق رہتا ہے۔ اس مذہبی  خطرے سے نمٹنے کیلئے انھوں نے ملک کی دوسری سیاسی جماعتوں کو اپنا ہمنو ا بنا ا شروع کیا اور ١٩٧٧ کے انتخابات میں پاکستان قومی اتحاد(پی این اے) کے نام سے پاکستان پیپلز پارٹی کا مقا بلہ کرنے کی ٹھانی۔ جماعت اسلامی کی بنیادی سوچ یہ تھی کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سارے مخالفین کو ایک چھتری کے نیچے جمع کر کے ان کے ووٹوں کو تقسیم ہونے سے بچا یا جائے اور یوں ذولفقار علی بھٹو کی مقبولِ عام جما عت پاکستان پیپلز پارٹی کو شکست سے دوچار کیا جائے۔ جماعت اسلامی کو ایسا سوچنے اور اس پر عمل کرنے کا پورا حق حاصل ہے کیونکہ الیکشن کی منصوبہ بندی کرنا اوراپنی فتح کے خواب دیکھنا ہر سیاسی جماعت کا حق ہے اورا س پیما نے کے مطابق اپوزیشن کو بھی یہ حق حاصل تھا کہ وہ انتخابات کو جیتنے کیلئے اپنا لائحہ عمل بنائے ۔ا سی مقصد کے حصول کے پیشِ نظر اس نے پاکستان قومی اتحاد کے قیام کا ڈول ڈالا اور انتخابات میں اپنی فتح کا خواب سجا یا۔ پاکستان قومی اتحاد کی تشکیل نے ١٩٧٧ کے انتخابات کو انتہائی مشکل اور دلچسپ بنا دیا او نظریاتی صف بندی نے ان انتخابات کی اہمیت کو دو چند کر دیا اور لوگ ان انتخابات کی گہما گہمی سے بہت محظوظ ہوئے۔بحث و مباحثہ کا ایک میدان تھا جو اصولی سیاست کی رعنائیوں سے سجا ہوا تھا اور ہر کوئی اس میں اپنی رائے کا اظہار بھی کر رہا تھا۔ اپنی توانا ئیاں بھی صرف کر رہا تھا اور اپنی جماعت کی جیت کیلئے محنت بھی کر رہا تھا۔میں نے اپنی ساری سیاسی زندگی میں ان انتخابات سے زیادہ جذباتی اور ہنگامہ خیز الیکشن کبھی نہیں دیکھے۔ میری ذاتی رائے میںیہ پاکستانی سیاست کے آخری ا نتخابات تھے جو نظریاتی بنیادوں پر لڑے گئے۔ اس میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاست اپنی ساری رعنائیوں کے ساتھ دیکھی اور محسوس کی جا سکتی تھی لیکن بد قسمتی سے ان انتخابات کو متنا زع بنا دیا گیا اورانہی انتخابات کے نتیجے میں ٥ جو لائی ١٩٧٧ کہ جنرل ضیا الحق نے ملک پر مارشل لا نافذ کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔سچ تو یہ ہے کہ اپوزیشن اپنی الیکشن مہم کے دوران عوام کی جذباتی محبت اور حمائت کے پیشِ نظر ذہنی طور پر ان انتخابات میں اپنی شکست کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں تھی وہ بزعمِ خویش یہ سمجھ بیٹھی تھی کہ اس نے میدان مار لیا ہے اور انتخابات میں اسکی جیت یقینی ہے لیکن وہ یہ بھول بیٹھی تھی کہ انکے مدِ مقابل ذولفقار علی بھٹو جیسا ذہین و فطین اور سحر انگیز قائد ہے اورجسے پسماندہ اور کمزور طبقات کی مکمل حمائت حاصل ہے۔شہروں کی حد تک پاکستان قومی اتحادکے جلسوں جلوسوں کی ایک شان تھی ایک رنگ تھا لیکن پاکستان کی آبادی کا بیشتر حصہ دیہات پر مشتمل ہے اور پی پی پی کی اصل قوت و ہی پر ہے کیونکہ ذولفقار علی بھٹو نے انہی لوگوں کو ہی تو جاگیر داروں اور زمینداروں کے ظلم و ستم سے نجات دلائی تھی اور انھیں برابری اور تکریمِ انسانیت کے اعلی اصولوں سے ثمر بار کیا تھا۔ آج بھی اگر ہم سیاسی منظر نامے کو غیر جانبداری سے دیکھنے کی کوشش کریں تو پی پی پی اب بھی شہروں کی نسبت دیہات میں زیادہ مقبول ہے اور ان کے ووٹ بینک کا زیادہ حصہ دیہاتی عوام کی محبت کے مر ہونِ منت ہے۔ دیہاتی زندگی میں خلوص اور وفا ایسے جو ہر ہیں جن پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے اور دیہاتی لوگ ایک دفعہ جس سے پیمانِ وفا باندھ لیں اس کا ساتھ پھر کبھی نہیں چھوڑتے۔ ذولفقار علی بھٹو سے ان کی محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی لہذا وقت آنے پر انھون نے اپنی محبت ذولفقار علی بھٹو کے پلڑے میں ڈال کر ساری انتخابی مہم کو الٹ کر رکھ دیا تھا جسے پاکستان قومی اتحاد ماننے کو ذہنی طور پر تیار نہیں تھا۔پاکستان قومی اتحاد کے مدِ مقابل ذولفقار علی بھٹو کی شخصیت تھی جو اتنی قد آور تھی کہ اپوزیشن اس کی قوت سے خو فزدہ تھی لہذا اس کو راستے سے ہٹانا ضروری  تھا اورا س کا ایک طریقہ انتخابت تھے جن میں انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اس کا دوسرا طریقہ یہ تھا کہ اس کے خلاف ایک سازش تیار کی جاتی اور اس کا خاتمہ کیا جاتا۔ پاکساتن قومی اتحاد نے اس دوسری راہ کا انتخاب کیا اور ایک سازش تیار ہوئی جس میں امریکہ اور فوج کا باہمی گٹھ جوڑ تھا اور جس پر پاکستانی عدلیہ نے اپنی مہرِِ تصدیق ثبت کی اور یوں وہ شخصیت جسے بیلٹ سے شکست د یناممکن نہیں تھا اسے بلٹ کے نشانے سے اپنی راہ سے ہٹا دیا گیا۔یہی وہ لمحہ تھا جس میں سیاست نے ایک نیا موڑ لیا اور پھر سیاست دائیں اور بائیں کے دائروں سے نکل کر بھٹو کے قاتلوں اور اسکے محبان کے درمیان ایک جنگ کا روپ اختیار کر گئی۔ جسے بھٹو اور اینٹی بھٹو کے فلسفے کے نام سے موسوم کیا جاتاہے۔ بھٹو ازم کے مضبوط اور توانا نظریے کے مقابل ١٩٨٨ کے انتخابات میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اسلامی جمہوری اتحاد تشکیل دیا گیا جسکا واحد مقصد پاکستان پیپلز پارٹی کی فتح کا راستہ روکنا اور اینٹی بھٹو ووٹ کو تقسیم ہونے سے بچا کر اپنی ساکھ کو بچا نا تھا۔انکی کوششیں رنگ لائیں اور یوں یہ انتخابات اس حد تک کنٹرولڈ دیما کریسی کی علامت بنے کہ اسمیں پاکستان پیپلز پارٹی کو دو تہائی اکثریت سے محروم بھی کیا گیا اور اپنے من پسند گھوڑے میاں محمد نواز شریف کو پنجاب کی وزارتِ اعلی سے بھی نوازا گیا۔ صدر غلام اسحاق خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مہروں نے اس زور سے میاں محمد نواز شریف کی پیٹھ تھپتھپائی کہ میاں صاحب خم ٹھونک کر پاکستان پیپلز پارٹی کے سامنے ڈٹ گئے۔ہر چندکے یہ سب کو علم ہے کہ وہ خود نہیں ڈٹے تھے کیونکہ ان میں تو ڈٹ جانے کی ہمت ہی نہیں تھی اگر ڈٹ جانے کی ہمت ہو تی تو وہ جنرل پرویز مشرف سے دس سالہ معاہدہ کر کے جدہ کے ایک پر تعیش محل میں روپوش نہ ہو جاتے۔ انھیں تو اسٹیبلشمنٹ نے کھڑا کیا تھا اور پھر اسٹیبلشمنٹ کے سہارے انھوں نے جسطرح وفاق کو ناکوں چنے چبوائے اسے وفاق کے خلاف پنجاب کی بغا وت کا نام ہی دیا جا سکتاہے۔مر کز اور صوبوں کے اندر پہلی دفعہ محاذ آرائی دیکھنے کو ملی اور وفاقی سیکرٹریوں کی جو مٹی اس دور میں پلید ہوئی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔فوج کا ہاتھ پشت پر ہو تو پھر تو مٹی کا بت بھی شیر کا روپ دھار لیا کرتاہے اور یہاں پر تو پنجاب کا وزیرِ اعلی تھا جسکی پشت پر فوج اور ساری اسٹیبلشمنٹ کھڑی تھی لہذا اسکا بھڑکیں مارنا بنتا تھا اور اس نے دل کھول کر بھڑکیں ماریں اور ایک شیر کا تاثر قائم کرنے کی کوشش کی یہ الگ بات کہ وہ نہ شیر تھا اور نہ شیر ہے البتہ شیر بننے کا سوانگ اس نے انتہائی خوبصورتی سے رچا یا۔۔ ١٩٩٦ میں محترمہ بے نظیر بھٹو پر اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے انتہائی سخت دبائو تھا کہ وہ اسمبلی کو تحلیل کر کے نئے انتخابات کا راستہ ہموار کریں لیکن بی بی نے ایسا کرنے سے معذرت کرلی اس نے کہا کہ میں اسمبلی کے فلور پر جان دے سکتی ہوں لیکن اسمبلی کو برخاست نہیں کرسکتی لہذا اسٹیبلشمنٹ کی اشیرواد سے صدرِ پاکستان فاروق احمد خان لغاری نے پی پی پی سے بے وفائی کر کے یہ کارنامہ سر انجام دیا ۔ ١٩٩٧ کے انتخابات کا ا نعقاد کیا گیا جسمیں میاں محمد نواز شریف دو تہائی اکثریت سے کامیاب ہو ئے اور ایک ایسے سول آمرکے روپ میں ابھرے جنکے سامنے کسی کو بھی دم مارنے کی مجال نہیں تھی۔ اپوزیشن اور عدلیہ پر ہاتھ صاف کرنے کے بعد جب انھوں نے فوج پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی اور جنرل جہانگیر کرامت کو بڑے ہی بھونڈے اور توہین آمیز انداز سے معزول کیا تو فوج کے اندر ایک بے چینی نے جنم لیااور یہی بے چینی ١٢ اکتوبر ١٩٩٩ میں اقتدار سے انکی علیحدگی کا جواز بنی۔ کہتے ہیں جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے اور جب سیاست دان کی شامت آنی ہوتی ہے تو وہ فوج سے پنگا کرنے کی حماقت کرتا ہے۔ فوج پر میاں نواز شریف کی یلغار کے ردِ عمل میںا سٹیبلشمنٹ نے اپنے ہی تیار کردہ بت ِکافری کو گرانے کا فیصلہ کر لیا اور ایک شب خون کے ذریعے اقتدار ان سے چھین کر انکے ساتھ وہ سلوک روا رکھا جسکی انھیں ہر گز توقع نہیں تھی۔ جب توقع ہی اٹھ گئی غالب۔ کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی والی کیفیت میں میاں برادران ایک معافی نامے کے ذریعے دس سال کیلئے جلاوطن کر دئے گئے۔ جنرل پرویز مشرف ملک کے نئے حکمران ٹھہرے اور ساری اسٹیبلشمنٹ انکی مٹھی میں بند ہو گئی۔ مسلم لیگ (ق) انکی داشتہ بن کر انکے ساتھ شریکِ اقتدار ہو گئی اور یہ انتظام نو سال تک بغیر کسی رکاوٹ اور حیل و حجت کے چلتا رہا۔ کچھ سیاسی جماعتیں چمچے کڑچھے بن کر جنرل پرویز مشرف کا ساتھ دیتی رہیں اور یوں اسٹیبلشمنٹ کی سب سے چہیتی جماعت مسلم لیگ (ن) اسٹیبلشمنٹ سے بہت دور چلی گئی لیکن قدرت کے کارخانے میں خلا ممکن نہیں ہے لہذا اس خلا کو پر کرنے کیلئے اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کا انتخاب کیا ور اسے تھپکی دی گئی کہ وہ خم ٹھونک کر میدان میں نکل آئے۔ ٣٠ اکتوبر کو منٹو پارک لاہور میں تحریکِ انصاف کا جلسہ اسی تھپکی کا بہترین شاہکارہے ۔ اسٹیبلشمنٹ کی بہت سی پر وردہ قوتیں پسِ پردہ عمران خان کا بھر پور ساتھ دے رہی ہیں اور وقت آنے پر اس کی جیت میں بنیادی کردار ادا کریں گی۔ میاں برادران اس جلسے سے جسطرح سٹپٹائے ہیں وہ سمجھ سے باہر ہے ۔ ایسے محسوس  ہو رہا ہے جیسے انکے پائوں تلے سے زمین چھین لی گئی ہو اور وہ ہوا میں معلق ہو کر رہ گئے ہوں۔میا ں برادران تو پورے ملک پر حکمرانی کا خواب دیکھ رہے تھے لیکن عمران خان کے ایک ہی بائو نسر نے انکے اوسان خطا کر دئے ہیں۔ انھیں تو اب یہ فکر دامن گیر ہو گئی ہے کہ تختِ لا ہور کا کیا بنے گا کیونکہ ٣٠ اکتوبر کو عمران خان نے اپنی طاقت کا مظاہرہ پنجاب کے دل لاہور میں کیا ہے اور دل تو ہے دل۔ دل کا کیاکیجئے گا(جاری ہے)۔ تحریر : طارق حسین بٹ