کیا مسئلہ کشمیر ایک بار پھر حکمرانوں کی سیاسی منافقت کا شکار ہونے جارہا ہے۔؟کیا مستقبل قریب میں ابھرتی ہوئی تیسری سیاسی قوت تحریک انصاف کے قائد عمران خان، جنھیں سیاسی تجزیہ نگارایک متبادل قیادت اور نئے متوقع حکمران کے روپ میں پیش کررہے ہیں،کشمیر پر اسی سابقہ موقف کا اعادہ کریں گے،جس کی وجہ سے یہ مسئلہ آج تک لٹکا ہوا ہے۔؟ اور کیاجس طرح پاکستانی حکمرانوں نے 63 سال تک مسئلہ کشمیر کو الجھا کر اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا،آئندہ آنے والی قیادت بھی کشمیر کاز کیلئے وہی دوغلی پالیسی جاری رکھ کر مزید 63 سالوں تک اِس مسئلے کو الجھائے رکھے گی۔؟ اِن سوالوں کے جوابات سے قبل ہم کچھ دیر کیلئے ماضی سے حال تک کا سفر کرتے ہیں،مسئلہ کشمیر گذشتہ 63 سالوں سے ہمارے سیاسی اور فوجی حکمرانوں کی عدم توجہی،سیاسی بازی گری اور لفظی جمع خرچی کا شکار رہا ہے،حکمرانوں نے بار بار کشمیر کے معاملے پر ہمالیہ پہاڑ سے بڑی غلطیاں کیں،جس کی سزا آج کشمیری عوام سمیت پوری پاکستانی قوم بھگت رہی ہے،یہ وہی جنت نظیر وادی کشمیر ہے جس کی سیاسی اور جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر قائد اعظم محمدعلی جناح نے فرمایا تھا کہکشمیر ہماری شہ رگ ہے۔ اِس شہہ رگ کے حصول کیلئے قائد اعظم نے جنرل گریسی کوبھارتی فوج کے خلاف کاروائی کا حکم بھی دیا تھا،لیکن جنرل گریسی نے اِس حکم کو دانستہ نظر انداز کرکے بھارت کو فائدہ پہنچایا،اگر 1948 میں سیز فائر نہ ہوتا تو کشمیر آزاد ہو کر کب کا پاکستان میں شامل ہوچکا ہوتا،لیکن سازشی ہندو بنیا اقوام متحدہ کی مدد سے فائر بندی کرانے میں کامیاب ہوگیا اوریوں اسے اپنی مکارانہ چالیں چلنے اورکشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے کیلئے وقت مل گیا، 1962 میں ہمیں کشمیر آزاد کرانے کا سب سے اہم موقعہ چین بھارت جنگ کے دوران ملا،جب چین نے ہم سے کہا تھا کہ کشمیر پر قبضہ کرلو،لیکن اس وقت کی فوجی آمر جنرل ایوب خان نے کشمیر پر قبضے کا آسان موقع گنوادیا،اگر اس روز جنرل ایوب بہادرانہ فیصلہ کرلیتے تو ہماری تاریخ کا دھارا ایک نیا رخ اختیار کر چکا ہوتا،اِس شرمناک واقعہ کی تفصل جنرل ایوب کے سیکرٹری قدرت اللہ شہاب کی کتاب شہاب نامہ میں دیکھی جاسکتی ہے ۔ یوں1989 میں لبریشن فرنٹ کے نوجوانوں کی عسکری تحریک کے آغاز سے قبل تک مسئلہ کشمیرپاکستانی حکمرانوں کی سیاسی بازی گری کا شکار رہا،1994 میں محترمہ بے نظیر بھٹو مسئلہ کشمیر کو OIC میں لے گئیں اور انہوں نےOIC میں حریت کانفرنس کو مبصر کی حیثیت دلوائی،1999 میں میاں نواز شریف نے بھارت کے ساتھ مزاکرات کا سلسلہ شروع کیا،جس کے نتیجے میں بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی پاکستان آئے،اِس دورے سے کچھ امکانات پیدا ہوئے کہ شاید مسئلہ کشمیر کا کوئی پرامن حل نکل آئے،لیکن واقعہ کارگل سے یہ معاملہ ایک بار پھر سرد مہری کا شکار ہوگیا،12اکتوبر 1999 کو جنرل پرویز مشرف میاں نواز شریف کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قابض ہوگئے،جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان ایک بار پھر مذاکراتی عمل شروع ہوا،جولائی 2001 میں پرویز مشرف سربراہی کانفرنس میں شرکت کیلئے آگرہ گئے،مگریہ کانفرنس کامیاب نہ ہوسکی،اِسی دوران سانحہ نائن الیون سے دنیا کے نقشے پر ایک ایسا نیا منظر نامہ ابھرا،جس نے جدوجہد آزادی اور دہشت گردی کے فرق کو مٹادیا، امریکہ اور اس کے حواریوں نے اقوام متحدہ کی چھتری تلے ایک نئی لغت ایجاد کی اور انہوں نے مسلمانوں کے جذبہ جہاد اور آزادی کی جدوجہد کو دہشت گردی کا خود ساختہ نیا مفہوم ہی نہیں پہنایا بلکہ وہ مسلم ممالک اور حریت پسند تنظیمیں جو دنیا بھر میں مظلوم اور محکوم مسلمانوں کے حقوق کی علامت اور عالم کفر کیلئے چیلنج بنی ہوئی تھیں کو دہشت گرد قرار دے کر ان پر چڑھ دوڑے،آج اِس ظلم و بربریت اور سفاکی کی داستانیں افغانستان،عراق ،لیبیا،پاکستان کے قبائلی علاقوں اور آپ کو اب شام تک بکھری نظر آئیں گی۔ جنوری 2004 میں پاک بھارت مزاکراتی عمل ایک بار پھر شروع ہوا،اٹل بہاری واجپائی دوسری بار پاکستان آئے،لیکن اِن مزاکرات کا بھی کوئی فوری حل نہ نکل سکا،اِس دوران پرویز مشرف نے کشمیر پر چار نکاتی فارمولا بھی پیش کیا،مگر بھارت کی طرف سے اِس کا بھی کوئی مثبت جواب نہیں آیا،27دسمبر 2007 کو بے نظیر بھٹو کی ناگہانی شہادت نے پیپلز پارٹی کو چوتھی بار اقتدار کے سنگھاسن پر پہنچادیا،صدر آصف علی زرداری صدارتی عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کو مستحکم کرنے میں مسئلہ کشمیر کو آڑے نہیں آنے دیا جائے گا اور اگر اِس معاملے کو حل کرنے کی ذمہ داری اگلی نسلوں پر چھوڑ دی جائے تو بہتر ہے ۔بعد میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ کشمیر کو سائیڈ لائن پر رکھ کر بھارت سے باہمی روابط مضبوط بنائے جا سکتے ہیں۔یہ دراصل وہ امریکی زبان تھی جو وہ صدر صاحب بول رہے تھے،جب ملک کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے ان کے بیان پر کڑی تنقید ہوئی تو انہوں نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر پر پاکستان کے دیرینہ موقف میں تبدیلی نہیں آئی ہے۔ مگراِس کا عملی ثبوت اس وقت عیاں ہو کر سامنے آ گیا جب نیو یارک سے شائع ہونے والے اخبار وال اسٹریٹ جرنلکو دیئے گئے انٹرویو میں صدر زرداری نے کہا کہ کشمیر کے اندر جو لوگ مسلح جدوجہد میں سرگرم ہیں وہ اصل میں دہشت گرد ہیں،بھارت پاکستان کیلئے خطرہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ سے پاکستان کو ڈر ہو سکتا ہے۔ صدر کے بیان سے یہ بات صاف محسوس کی جاسکتی تھی کہ کشمیر کے بارے میں ان کی سوچ اورخیالات میں ہی نہیں بلکہ حکمت عملی میں بھی لچک اور تبدیلی پائی جاتی ہے اور اِس کا عملی اظہار گذشتہ دنوں موجودہ حکمران جماعت بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دے کر کربھی چکی ہے،حال ہی میں مالدیپ میں ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس کے موقع پر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ سے ملاقات میں یہ دعوی بھی کیا کہ کشمیر سمیت تمام تنازعات با مقصد مذاکرات کے ذریعے طے ہونگے اور اگلے سال مئی کے بعد برصغیر کے عوام کو خوشخبری سنا دی جائے گی،مگربھارتی وزیر اعظم نے بھارت پہنچتے ہی بھارت ساتھ کے تجارت کو فروغ دینے کے خواہش مند اور پسندیدہ ملک قرار دینے والے ہمارے خوش فہم وزیراعظم کو دو ٹوک الفاظ میں باور کرادیا کہ پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کیخلاف موثر اقدامات تک وہ پاکستان کا دورہ نہیں کرینگے،یعنی بالفاظ دیگر وہ یہ کہہ رہے تھے کہ حکومت پاکستان کی جہاد کشمیر میں مصروف کشمیری عوام اور حریت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی ہی مسئلہ کشمیر کو کسی ممکنہ حل کی طرف لے جاسکتی ہے،دراصل بھارت آزادی کشمیر کی تحریک کو پاکستان کی اخلاقی و سیاسی حمایت سے محروم کرکے باآسانی کچلنا چاہتا ہے،اب سوال یہ ہے کہ کیا وزیراعظم پاکستان نے ایسے ہی اقدامات کے تحت مسئلہ کشمیر کے حل کی قوم کو نوید سنائی ہے،اگر خدانخواستہ ایسا ہے تو اِس کا مطلب اِس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ پاکستان خود کشمیر کو پلیٹ میں رکھ کر بھارت کے حوالے کردے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری حکومت کو کشمیر کے حل سے کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ہی اِس حوالے سے وہ کوئی واضح حکمت عملی اور ایجنڈا رکھتی ہے،ویسے بھی تاریخ گواہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے حکومتوں کی پالیسیاں کبھی بھی عوامی جذبات کی نمائندہ نہیں رہیں،ہماری کسی بھی حکومت نے مسئلہ کشمیر کو مثبت انداز میں حل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی،جس کی وجہ سے کشمیر کاز کو ہر دور میں نقصان ہوا ہے،حکمرانوں نے 63 سال جذباتی کار روائیوں،غیرحقیقت پسندانہ سیاسی پالیسیوں اور غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل کی بھینٹ چڑھا دیئے،اگر یہی روش آئندہ بھی جاری رہی تو اگلے تریسٹھ برسوں میں بھی یہ مسئلہ حل طلب ہی رہے گا،یہی وجہ ہے کہ کشمیری بھائی پاکستانی حکمرانوں کی دوغلی اور منافقانہ پالیسی سے سخت نالاں ہیں،انہیں پاکستان سے گلہ ہے کہ وہ کئی عشروں سے جاری تحریک آزادی کشمیر کی اخلاقی پشت بانی بھی نہیں کر رہا ہے،جبکہ وہ 1989 سے اب تک بھارتی تسلط سے آزادی کیلئے ایک لاکھ جانوں اور ہزاروں بہنوں کی عصمتوں کی قربانی دے چکے ہیں اور آج بھی 8 لاکھ درندہ صفت بھارتی افواج کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں،اِن حالات میں میڈیا کا پروجیکٹ کردہ اور مستقبل کا متوقع حکمران ہونے کے دعویدار عمران خان بھی اگر وہی راگ الاپیں،اسی پالیسی کوجاری رکھنے کا اعادہ کریں اور دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد سازی اور تعلقات کی بحالی کا وہی فارمولا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان باہمی دوستی اور رشتوں کو قائم اور استوار رکھنے کیلئے مسئلہ کشمیر کو مستقبل میں حل کرنے کیلئے چھوڑدیا جانا چاہیے پیش کریں جسے صدر زرداری نے پیش کیا تھا اور جسے میاں نواز شریف نے یہ کہہ کر آگے بڑھایا تھا کہ دونوں ممالک کو مسئلہ کشمیر پر اپنے 60 سالہ موقف سے باہر نکل آناچاہییتو اِس کے سوا اور کیا سمجھا جاسکتا ہے کہ عمران خان بھی نواز شریف اور آصف علی زرداری کی طرح کشمیری حریت پسندوں اور عوام کی قربانیوں کے طویل سفر کو غلط ثابت کرکے ان کی آزادی کی تحریک کو ایک ایسے مرحلے پر سبوثاژ کرناچاہتے ہیں،جب مقبوضہ کشمیر کے چپے چپے سے حق خودارادیت کیلئے آوازیں بلند ہو رہی ہیں اور پوری دنیا کے میڈیا میں یہ مسئلہ ایک کرنٹ ایشو بن چکا ہے، خودکشمیری عوام اپنی جدوجہد کے اِس نازک مرحلے پر کھڑے اپنے خون سے تحریک آزادی کشمیر کی آبیاری کرکے یہ ثابت کررہے ہیں کہ و ہ بھارت کے ظالمانہ شکنجے سے آزادی حاصل کیے بغیر کسی قیمت پر راضی نہیں ہونگے۔ یقینا عمران خان کے بیانات سے یقینا بھارت بہت خوش ہوا ہوگا،جس نے 1948 سے اِس مسئلہ کو آئندہ کی نسلوں کے لیے اٹھا رکھاہے اور کشمیریوں کی نسل کشی میں مصروف ہے،مگر ہمارا ماننا ہے کہ عمران خان نے نہ صرف کشمیریوں کے جذبات مجروح کیے ہیں بلکہ بے شمار پاکستانیوں کو بھی شدید مایوس کیاہے،بھارت تو یہی چاہتا ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کو بھول کر باہم تجارت کو فروغ دے،عمران خان نے مسئلہ کشمیر کو مستقبل کیلئے علیحدہ رکھ چھوڑنے کی بات کرکے بھارت کے موقف ہی کی تائید کی ہے،لیکن سوال یہ ہے کہ آئندہ نسلوں اور مستقبل کیلئے وقت کا تعین کون کرے گا؟ کشمیر میں اب تک تین نسلیں شہید ہوچکی ہیں اور کتنی نسلوں کے لہو تک انہیں اِس مسئلہ کے حل کا انتظار کرنا ہوگا؟حیرت کی بات ہے کہ تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے کشمیر میں بھارتی فوج کی درندگی،غارت گری اور کشمیری بہنوں کی عصمت دری کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا،انہوں نے یہ تو کہا کہ مسئلہ کشمیر کا جوبھی حل ہو اس میں بندوق کا استعمال نہیں کیاجانا چاہیے،لیکن کیا ان کے علم نہیں کہ بندوق کون استعمال کررہاہے؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ 1989 سے قبل کشمیریوں نے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار نہیں کیا تھا؟اسی طرح انہوں نے گورنرپنجاب سلمان تاثیر کے حوالے سے بھی کہا ہے کہ اس کا قاتل ہیرو بن گیا،مگرشاید وہ یہ بھول گئے کہ گورنر پنجاب توہین رسالت کی مرتکب سزا یافتہ مجرمہ آسیہ مسیح کی کھلے عام سرپرستی میں مصروف تھے، انہوں نے توہین رسالت کے قانون کو کالا قانون بھی کہا،ان کا یہ عمل اسلام اور مملکت کے قانون کے خلاف اور لاکھوں عاشقان مصطفی کے مذہبی جذبات کو مجروع کرنے کا سبب بنا،یہی وہ بنیادی وجہ تھی کہ آج اس کا قاتل مسلمانوں کا ہیرو بنا ہوا ہے،بالکل اسی طرح جس طرح غازی عبدالقیوم اور علم الدین شہید عاشقان مصطفی کے ہیرو ہیں۔ بلاشبہ عمران خان پاکستان کی گندی سیاست میں ایک قابل قدر اضافہ ہیں،انہوں پندرہ سال کی مسلسل محنت اور جدوجہد کے بعد اپنا مقام پیدا کیا ہے،لوگ انہیں امریکی غلامی اور ملک میں مسلط جاگیردارانہ نظام کے خلاف ایک نجات دہندہ کے روپ میں دیکھ رہے ہیں،ہزاروں لوگوں نے ان سے روشن مستقبل کی امیدیں وابستہ کی ہوئی ہیں،مگرایسے میں اِس قسم کے دل آزار بیانات ان کی مسقتبل کی سیاست پر کئی سوالیہ نشان لگارہے ہیں،کیا انہیں نہیں معلوم کہ بھارت کے ساتھ یکطرفہ دوستی و باہمی اعتماد سازی کے نام پر آلو پیاز کی تجارت اور بس سروس چلانے کی کوشش مظلوم کشمیریوں کے خون کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے،وہ نہیں جانتے کہ کشمیر کاز کو سائیڈ لائن کرکے تجارت کو فروغ دینے کا مطلب بھارت کو فائدہ پہنچاکر اس کی علاقائی تھانیداری پر مہر تصدیق ثبت کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے،کیا وہ نہیں جانتے کہ کشمیر کو نظر انداز کرکے قومی مفادات کا سودا کرنیوالی قیادت کبھی بھی پاکستانی عوام کیلئے قابل قبول نہیں ہوسکتی اور نہ ہی مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر پاک بھارت تعلقات بہتر ہو سکتے،کیا وہ اِس حقیقت سے بھی آگاہ نہیں کہ محض اقتدار کے حصول کیلئے بھارت اور امریکی خوشنودی کی خاطر کشمیری عوام کی امنگوں کیخلاف جانا اور عاشق رسول ممتاز قادری کو اپنا ہیرو قرار دینے پر ناپسندیدگی کا اظہار کرنا کروڑوں مسلمانوں کے مذہبی جذبات اور دینی جذبوں کی توہین ہے،لہذا ہمارا عمران خان کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ اپنی طرز فکر اور موجودہ موقف پر نظر ثانی کریں،کہیں ایسا نہ ہو کہ بھارت کی خوشامد اور امریکی چاپلوسی میں ان کی شخصیت کا پورا مجسمہ ہی مین بوس ہوجائے،کیونکہ مسئلہ کشمیر محض چند ہزار میل پر مشتمل قطعہ زمین کی بندر بانٹ کا معاملہ نہیں بلکہ یہ ڈیڑھ کروڑ کشمیریوں کے مستقل کا ایسا سوال ہے،جس سے پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے ساتھ سلامتی و استحکام بھی وابستہ ہے اور کیوں نہ ہو کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے اور شہہ رگ کے بغیر نہ تو کوئی انسان زندہ رہ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی ملک۔ تحریر : محمد احمد ترازی