یہ توہمیشہ سے ہی پاک و ہند کے حکمرانوں کی یہ خصلت رہی ہے کہ اِنہوں نے تما م ترسیاسی اور ملکی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دیدہ ودانستہ طور پر اپنی اپوزیشن کو چٹکی پر نچانے کا ایک ایساطریقہ اپنائے رکھا کہ اپوزیشن اِن کی ہر چٹکی پر لٹو کی طرح ناچتی رہیں اور یہی وجہ ہے آج بھی پاک بھارت حکمرانوں نے اپنی اپنی اپوزیشن کی ایک نہ سننے کا ایسا تہیہ کررکھاہے کہ یہ کچھ بھی کہہ لیں، کرلیں یا کروالیں مگر اِن کے کسی بھی فعل پر نہ تو خودکان دھرنا ہے اور نہ کسی کو اِن کی ایک سننے کاحکم دینا ہے یوں پاک و بھارت کے ایسے ڈھیٹ حکمران ہیں جو اپنی اپوزیشن کو کاغذی طور پر توماننے کو تیار ہیںمگر عملی طور پر اِن کے وجود اور کام سے خائف رہنااپنے لئے باعث اعزاز اور فخر سمجھتے ہیں اور اپنی اِسی روایات کو برقرار رکھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کی پارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعت کے قائد حزبِ اختلاف ہوں یا اِن کی پارٹی کے سربراہ ہی کیوں نہ ہوں اور اِسی طرح بھارتی پارلیمنٹ کی اپوزیشن… آج اِن سب کا اپنے صدور کے لئے ایک نعرہ بن گیاہے جو ایک طرف گو زرداری گو تو دوسری طرف گومنموہن گو کا نعرہ لگاتی نہیں تھک رہی ہیں۔ اِس کی کیا وجہ ہے…؟ جبکہ پاک بھارت دوممالک جو جنوبی ایشیامیں اپنے اپنے لحاظ سے ایٹمی طاقت ہیں اِن ہی ممالک میں ہر دو یا تین سال بعد اپنے اپنے صدور کے خلاف اپوزیشن کی جماعتیںپارلیمنٹ کے اندر اور باہر اِن کے نام لے لے کر گو فلاں گو کے نعرے لگانا کیوںشروع کردیتی ہیں کبھی اپوزیشن کی جماعتوں کے سربراہان اور اِن کے ساتھیوں نے یہ سوچناگوراہ کیا….؟ کہ پاک و ہند ہی میں حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والی جماعتیں ایساکیوں کرتی ہیں ….؟؟جبکہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ عوام نے جب اِنہیں ووٹ نہ دے کر حزبِ اختلاف کے لئے چن لیاہے تو اِنہیں یہ بات بھی جان لینی چاہئے کہ اِنہیں ایوان کے اندر اور باہر اپنے صدور کی چٹکی پر ہی ناچناہوگا توپھر یہ کیوں نہیں اپنے اندر صبروبرداشت کا مادہ بھی پیداکرلیاکریں اور اپنے صدور کو امورِ مملکت کی انجام دہی کے لئے تنقید برائے تنقیدسے پاک ہر قدم پر اپنا مثبت اور تعمیری کردار بھی اداکرتے رہناچاہئے اور یہ نہ کہ اپوزیشن میں ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ اپنے صدور کے اچھے اقدامات اور منصوبو ں پر بھی واہ ویلاہ کرتے رہیں اور اپنے نازیبا قول وفعل سے اپناسیاسی قد اونچاکرنے کی کوششوں میں مصروف رہیں جس سے ایک طرف اِن (اپوزیشن)کا وقار مجروح ہوتاہے تو دوسری طرف عوام الناس میں بھی اِن کی قدرومنزلت سے متعلق ایک غلط تاثر پیداہوتاہے۔ اور اِس کے ساتھ ہی پاک بھارت اپوزیشن کو اِس بات کا بھی ہر وقت یہ خیال رکھنا ضرور ی ہے کہ یہ اپوزیشن میں ہیں اِن کی کوئی اچھی بات بھی فورا نہیں سنی جائے گی کیوں کہ حکومتوں کے لئے اِس پر من وعن عمل کرنا اور جوں کا توں اِسے مان لینا مشکل ہوتاہے اور اِس کے لئے یقینا بڑاوقت بھی درکار ہوتاہے مگر اِس کے باوجود بھی اپوزیشن کا بے صبری کا مظاہرہ کرنااور حکومتوں کے خلاف احتجاجی تحریکیں چلانے کا اعلان کرنااور اپنے سربرا ہ مملکت کے خلاف گوفلاں گو جیسے نعرے لگانااور سڑکوں پر عوام کو لاکراِن سے بھی یہی نعرے لگوانا کسی بھی حال میں کوئی اچھااور مناسب فعل قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ جیسے اِن دنوں ہمارے یہاں کی ماضی کی فرینڈلی اپوزیشن اور آج کی روایتی حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کررہی ہے اور اِسی طرح بھارتی پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا رول اداکرنے والی حزبِ اختلاف نے اپنے برسرِ اقتدار صدر ڈاکٹر منموہن سنگھ کے خلاف باقاعدہ احتجاج اس وقت شروع کردیاکہ جب ایک ماہ کی چھٹیوں کے بعد بھارتی لوگ سبھاکا اجلاس جیسے ہی شروع ہوا تو ترنت بھارتی اپوزیشن نے پرزور طریقے سے حکومت پر کرپشن ، لوٹ مار اور اقرباپروری کے الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی شروع کردی جس کا موقف یہ ہے کہ بھارت میں کرپشن حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے اناہزارے جس نے بھارت میں کرپشن کے خلاف اپنی نام نہاد تحریک چلائی تھی یہ خودبھارت کا سب سے بڑاکرپٹ شخص ہے جس نے حکومتی اراکین اور سرکاری شخصیات کے ساتھ مل کر اپنی یہ تحریک محض اِس لئے شروع کی یہ کرپشن کے خلاف بھر پور طریقے سے صرف اپوزیشن کاراستہ روک سکے جس میں اِسے کوئی کامیابی حاصل ہوئی ہویانہ ہوئی ہومگر یہ بات کھل کر اب سامنے آچکی ہے کہ بھارتی اناہزارے جسے حکمران جماعت اوراچھے عہدوں پر فائز بڑی تعداد میں سرکاری شخصیات کی مکمل حمایت حاصل ہے اِس نے ملک میں کرپشن کے بنددروازے بھی کھلوانے میں اپناتاریخی کرداراداکرکے دنیابھر میں بھارت کو بدنام کرکے رکھ دیا ہے۔ اِس بناپر بھارتی اپوزیشن نے اپنے صدر کے خلاف گو منموہن گو کے نعرے لگاکر یہ بات بھی پوری طرح سے واضح کردی ہے کہ بھارتی اپوزیشن کو پوراپوارایقین ہے کہ بھارتی صدر کی ا ناہزارے کوپسِ پردہ مکمل حمایت اور تائید حاصل رہی ہے اور آئندہ بھی رہے گی جس کے لئے بھارتی اپوزیشن نے یہ بھی دعوی کیاہے کہ بھارتی لوگ سبھاکے 22روزتک جاری رہنے والے اجلاس میں ہم گومنموہن گو کا نعرہ لگاتے رہیں گے اور ہنگامہ آرائی اس وقت تک جاری رکھیں گے کہ جب تک بھارتی صدرڈاکٹرمنموہن سنگھ اپنے عہدے سے خود مستعفی نہیں ہو جاتے ہیں۔ جبکہ خبر یہ بھی ہے کہ اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی پر بھارتی پارلیمنٹ کے اسپیکرنے وہ صدارتی حکم نامہ بھی پڑھاجس میں اپوزیشن لیڈرکو واضح طور پر مخاطب کرکے کہاگیاتھاکہ وہ ملک وقوم کے وقار اور صدر کی عزت اور احترام کی لاج رکھیں اور ایساکوئی نعرہ نہ لگائیں جس سے برسرِاقتدار جماعت کا وقارمجروح ہواور بھارت دنیابھرمیں بدنام ہو اور اپوزیشن کا احتجاج …احتجاج ہی رہ جائے اِس موقع پر ہم ایک بار پھر یہ کہناچاہیں گے کہ اپوزیشن پاکستان کی ہویا بھارت کی اِسے چاہئے کہ وہ ہر معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کرے اور اپنے تعین کوئی ایساویسا نعرہ ہرگزمت لگائے یا اقدام نہ کرے جس سے دنیابھر میں ملک کی بدنامی اور عوام کی کردارکشی ہوجس طرح آج ہمارے یہاں ن لیگ سمیت اور دوسری جماعتیںمنصوراعجاز کے میموکے معاملے کو الجھااور اجھال کر اپناسیاسی مقصد حاصل کررہی ہیں اور ملک کے حساس معاملے پر فضول کی بحث وتکرارکرکے دنیابھر میں ملک کی عزت اور وقار کو داو لگارہی ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ اِس سارے معاملے کی پوری طرح چھان بین جاری ہے اور اِسے عوام کی امنگوں کے مطابق منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے تما م ملکی ادارے اپنے اپنے لحاظ سے تحقیقات میں مصروف ہیں اوراِس کے جو بھی نتائج آئیں گے عوام کو آگاہ کردیاجائیگا اِس پر اپوزیشن کو بھی چاہئے کہ صبرکرے اور میموجیسے معاملے پر اپنی سیاست کوچمکانے کے بجائے حکومت اور موجودہ صدر کے ساتھ اپناہر ممکن تعاون یقینی بنائے تاکہ باہمی اصلاح ومشوروں کے بعد میموکے معاملے کو سلجھایاجاسکے اور اِس کے پسِ پردہ سازشی عناصر کو بے نقاب کرکے آئندہ اِس کی سازش سے بچنے کا سامان بھی پیداکیا جا سکے۔ تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم