آج دنیا بھر میں اپنے مفادات کا تحفظ کرنے والے امریکا نے اپنی داداگیری اور بدمعاشی قائم کرنے کی غرض سے اپنی سفاکیت کی بناپرانسانیت کی پامالی کا جو سلسلہ شروع کررکھااِ س کی مثال کہیں نہیں ملتی ہے اب اِسی کو ہی دیکھ لیجئے کہ ہمارے ایک نجی ٹی وی چینل نے یہ خبر بریک کی ہے کہ پاکستان جو پہلے ہی نیٹوحملے کے بعد سراپااحتجاج تھاکہ ایک امریکی اخبار نے یہ دعوی کیاہے کہ گزشتہ ماہ کی آخری تاریخ کی صبح پاک افواج پر نیٹوفورسز نے دوبارہ حملہ کردیا جس کی تفصیلات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سامنے آتی جائیں گیںفی الحال اِس امریکی اخبا رنے اپنی خبر میں یہ دعوی بھی ضرورکیاہے کہ اِس حملے کے دوران کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔ ادھر اِس کے ساتھ ہی اپناسینہ چوڑاکرتے ہوئے امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف چیئرمین جنرل مارٹن ڈیمپسی نے مہمند حملے میں پاک فوج کے اہلکاروں کی شہادت پر پاکستان سے معافی مانگنے سے قطعی طور پرانکارکردیاہے اور اپنے معافی نہ مانگنے کا جواز یہ پیش کیاہے کہ پاکستان کی جانب سے شمسی ایئر بیس فوری طور پر خالی کرنے کا مطالبہ امریکی حکام کی سمجھ سے بالاتر ہے اِس کی وجہ سے معافی مانگنے کا توسوال ہی پیدانہیں ہوتاہے یعنی یہ کہ جب پاکستان نے ہم سے تعاون ختم کرنے کی ٹھان ہی لی ہے توپھر ہم اِس سے معافی کیوں مانگیں ….؟اور کس لئے مانگیں….؟؟ اگر اِسے ہم سے اور ہمیں اِس سے واقعی صحیح معنوں میں تعلقات استواررکھنے ہوتے تو یہ ہم سے اِس باراِس طرح معافی مانگنے کا ہرگزمطالبہ نہ کرتا اور ہم بھی ہمیشہ کی طرح کاغذوں اور بیانات میں ہی اِس سے معافی مانگ لیتے مگر اب توایسالگتاہے کہ نہ اِسے ہماری ضرورت ہے اور نہ ہی ہماری انتظامیہ کو بھی اِس کی کوئی ضرورت باقی رہ گئی ہے ہمیں اِس کے ساتھ مل کر اِس سے جو کام لیناتھاوہ ہم نے لے لیااور اِس نے ہمارے مطابق وہ سارے کام کردیئے …. اِس نے کہاہے کہ شمسی ائیربیس خالی کرنے والے اِس بے مقصد پاکستانی مطالبے سے امریکا کوبڑادھچکالگاہے کیوں کہ پاکستان کے اِس مطالبے سے دہشت گردوں کو تقویت ملے گی۔ ہاں البتہ! اِس امریکی جنرل نے یہاں دبے دبے الفاظ میں اِس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے اِ سے سنگین ضرور قرار دیاہے مگر اِس موقع پر بھی اِس نے امریکی مفادات کا خیال رکھتے ہوئے حکومت ِ پاکستان سے یہ ضرور کہاہے کہ وجوہات کے تعین تک اسلام آباد ہمیشہ کی طرح اپنی اعلی ظرفی اور صبر کا مظاہرہ کرے اور یہ دیکھے کہ اِس کے بدلے امریکا پاکستان کو کیاکیانوازتاہے ….؟؟گو کہ امریکی جنرل نے کھلے لفظوں پاکستان سے تعاون کا مطالبہ کرتے ہوئے ڈالروں کی شکل میں بھیک کی خوبصورت اور فخریہ پیشکش بھی آفر کر دی ہے۔ ادھر امریکی محکمہ دفاع کے ایک ترجمان نے نیٹوحملے سے پاک امریکا تعلقات میں پیداہونے والی مشکلات کے حوالے سے اِس بات کی بھی ضرورتصدیق کردی ہے کہ پاکستان کی ضرورتوں کا خیال رکھنے کے لئے امریکی انتظامیہ ہر وقت تیارہے بس پاکستان پہلے کی طرح امریکاسے اپناتعاون یقینی بنائے ہاںاتناضرور ہے کہ نیٹو حملے کی تحقیقات تو امریکااپنے تئین امریکی فوجی قواعد کے مطابق ضرورکرے گامگر اِس کے ساتھ ہی امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان نے یہ کہتے ہوئے اِس کا بھی انکشاف کردیاہے کہ اِس تحقیقات کے کلاسیفائیڈ حصوں تک پاکستان یاکسی بھی غیرملک کے نمائندے کی بھی دسترس نہیں ہوگی یعنی یہ کہ یہ تحقیقات یکطرفہ ہوگی جس سے امریکی ہٹ دھرمی نمایاں طور پر محسوس کی جاسکتی ہے کہ یہ اپنی تحقیقات میں جس طرح بھی چاہئے معنی مطلب نکال کر حقائق دنیاکے سامنے پیش کردے گا اور اِس کے ساتھ ہی امریکی حکام کی اِس ہٹ دھرمی پر ہماری عسکری قیادت نے اپناشدیدردِعمل ظاہرکرتے ہوئے اِن خیالات کا اظہارکیاہے کہ اتحادی افواج کو چوکیوں کا علم تھا اور مہمندایجنسی میں نیٹوافواج کا ارادی حملہ تھا،جس کے ذمہ دار جنرل ایلن ہیں ،امریکا کی یکطرفہ تحقیقات سے کوئی نتیجہ نکلنے کی امید نہیں ہے اور اِس کے ساتھ ہی ہماری عسکری قیادت نے اِس بات کا بھی اعادہ کیا کہ امریکاکے ساتھ تعلقات کا ارسرنو جائزہ لیاجارہاہے پاکستان کے سخت روئے کی وجہ سے پیداہونے والی صورت حال سے امریکاجو دن گزرنے کے ساتھ ساتھ پہلے ہی پریشان تھااِس کی اِس پریشانی میں مزید اضافہ اِس وقت اور بڑھ گیاجب ادھر روس نے بھی اپنے علاقوں سے نیٹو کی سپلائی لائن بند کرنے کی دھمکی دے دی واضح رہے کہ نیٹو حملے کے بعد پاکستان پہلے ہی احتجاجااپنے یہاں سے نیٹوکی سپلائی لائن بندکرچکاہے اور اِب روس نے بھی امریکا سے اپنے علاقوں میں نصب خطرناک میزائلوں کی تنصیب کے باعث تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے اپنے یہاں سے نیٹوکی سپلائی لائن بندکرنے کی دھمکی دے کر امریکااور نیٹوکی پریشانیوں میں اور اضافہ کردیاہے ۔جس کی وجہ سے افغانستان میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خاتمے کے لئے جنگ میں مصروف نیٹو افواج اور امریکی انتظامیہ شدیدبوکھلاہٹ کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔ جبکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وفاقی کابینہ نے پاکستانی چیک پوسٹوں پر نیٹوکے حملے کے بعد دفاعی کمیٹی کی جانب سے ملک کی خودمختاری اور استحکام سے متعلق اب تک اپنے کئے گئے فیصلوں کی جس جوانمردی اور بہادری سے توثیق کی ہے وہ اپنی جگہہ قابلِ تعریف ضرور ہیں مگر ہماری کابینہ کے اِس عمل سے جہاں وفاقی کابینہ پر عوام کا اعتماد بحال ہواہے تو وہیں ہمارے اٹھارہ کروڑ عوام بھی یہ سوچنے اور سمجھنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اگر یہی کچھ جو ہماری وفاقی کابینہ اور دفاعی کمیٹی آج کررہی ہے یہ بہت پہلے ہی کرلیتی تونیٹوکے ہاتھوں قوم کو یہ ذلت اور خواری تو نہ اٹھانی پڑتی جن کا اِن سطور کے رقم کرنے تک قوم کو سامنہ کرنا پڑ رہا ہے۔ اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان نے خود کو مصالحت پسندی کے گرداب میں جکڑے رہنے کی وجہ سے نیٹوکے پچھلے تما م حملوں کے بعد ہمیشہ اپنی معنی خیز خاموشی اختیار کئے رکھی جو اِس بات کی غماز ہے کہ پاکستان امریکا کا اتحادی بن کر دنیااور بالخصوص خطے سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے متحرک رہتے ہوئے اپنا فعال کرداراداکرناچاہتاہے مگر پچھلے مہینے کی 25اور 26تاریخوں کی درمیانی شب مہمند ایجنسی میں نیٹو کے ہیلی کاپٹروں اور جدید جنگی آلات سے لیس طیاروں نے دانستہ اور ارادی طور پر پاکستانی چیک پوسٹوں کو اپنی سفاکیت کا جس طرح نشانہ بنایااِسے کوئی جھٹلانہیں سکتایہی وہ نیٹو کی سفاکیت ہے جس نے مصالحت پسندی کے شکار پاکستانی حکمرانوں، سیاستدانوں، اعلی عسکری قیادت اور عوام کے سوئے ہوئے ضمیراور جذبہحب الوطنی کو ایک طرف جھنجھوڑ کررکھ دیاتو دوسری جانب اِن کو برداشت کے اس بنکر سے بھی نکال باہر کھڑاکیاجس کی وجہ سے یہ نیٹو اور امریکا کے ہر ظلم کو برداشت کرتے رہے تھے یعنی یہ کہ گزشتہ ماہ ہمارے سرحدی علاقے مہمند ایجنسی میں پیش آنے والے سانحہ نے پاکستان کی برداشت کی تمام حد یںختم کردئیں جس کے بعد نہ صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیامیں جہاں کہیں بھی محب وطن پاکستانی بستے ہیں ہر ایک فرد نے اِسے پاکستان کی خود مختاری اور ملکی سا لمیت پر حملہ قرار دیا اور نیٹو کی اِس ہٹ دھرمی پر اپناسخت ردِ عمل کا اظہارکرتے ہوئے اِسے نیٹو اور امریکاکی کھلی ہٹ دھرمی اور دہشت گردی سے تعبیر کیا ہے۔ اور اب اِسی کے ساتھ ہی اِس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ آج پاکستانی چیک پوسٹوں پر نیٹو کی ہٹ دھرمی کے باعث پیش آنے والے سانحہ میں پوری پاکستانی قوم ایک سوچ، ایک عزم،اور ایک ولولے کے ساتھ متحد اور منظم نظر آتی ہے جو اِس بات کو یقینی طور پر اور مضبوط بناتی ہے کہ ہم پاکستانی جو اکثر اپنے ذاتی،سیاسی،لسانی اور فروعی اختلافات کے باعث اغیار کو ٹکڑوں اور ٹولیوں میں بٹے ہوئے دکھائی دیتے ہیںمگر جب کبھی بھی کسی جانب سے دشمن کی طرف سے ملک کی خودمختاری ،استحکام اور سا لمیت پر کوئی آنچ آتی ہے یا کوئی دشمن اپنی ناپاک انگلی اپنے غلط ارادوں سے ہم پر اٹھاتاہے تو ہماری قوم اپنے تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ایک ایسی سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے روپ میں اپنے دشمن کے سامنے آکھڑی ہوتی ہے کہ جس کے اِس طرح متحد اور منظم ہونے سے اغیار پر لرزہ طاری ہوجاتاہے اور اِس کے ناپاک ارادے دم توڑجاتے ہیں ہم یہاں یہ کہتے ہوئے فخر محسوس کررہے ہیں کہ ہماری قوم کا یہی وہ انمول اور طاقتورترین جذبہ ہے جو ہمیں دنیاکی دیگر اقوام سے ممتازکرتاہے اور ہمارا یہی وہ طررہ امتیاز ہے جس کی وجہ سے آج ساری پاکستانی قوم نیٹو حملے کے بعد پیداہونے والی گھمبیرصورت حال میں یک جان ہوکر اپنے حکمرانوں،سیاستدانوںاور اپنی اعلی عسکری قیادت سے بھی اِس بات کا پرزورمطالبہ کررہی ہے کہ امریکا سے ہر اقسام کے( جن میں مشروط اور غیرمشروط )معاہدے شامل ہیں اِنہیںفوری طور پر ختم کئے جائیں اور اِس کی دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں اِس کے اتحادی ہونے سے انکار کرکے اِسے افغانستان میں نہتہ چھوڑ دیاجائے اور اِس کے بعد اِسے مجبور کیاجائے کہ یہ افغانستان میں اِس کے پہاڑوں میں چھپے دہشت گردوں کے خلاف اپنی جنگ خود لڑے اور اپنی شکست کے منہ دیکھنے کے بعد ذلیل وخوار ہوکرافغانستان سے اِس طرح نکل بھاگے جس طرح افغانستان پر قبضے کی نیت سے گھسنے والا روس بہادر یہاں سے پٹنے کے بعداپنی دم دباکر نکل بھاگاتھا۔اور اب افغانستان کی پہاڑوں سے ٹکرانے والے دہشت گردِ اعظم امریکااور نیٹوافواج کی باری ہے کہ یہ اپنی شکست سے دوچار ہوکرافغانستان سے نکل بھاگیں۔ تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم