صدر حامد کرزئی نے یوم عاشور پر افغانستان میں ہونے والے مہلک بم دھماکوں کی ذمہ داری پاکستان میں سرگرم کالعدم مذہبی انتہاپسند تنظیم پر عائد کی ہے۔لندن میں اپنی مصروفیات منسوخ کرکے بدھ کو کابل پہنچنے پر صدر کرزئی کا کہنا تھا کہ لشکر جھنگوی نے افغان دارالحکومت میں کیے گئے حملہ کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ہم اس معاملہ کی بڑی احتیاط سے تحقیقات کریں گے اور اس پر حکومتِ پاکستان سے بھی بات چیت کی جائے گی۔منگل کو ہونے والے اپنی نوعیت کے مہلک ترین حملوں میں مجموعی طور پر کم از کم 59 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے 55 کابل میں ایک مزرا کے قریب شیعہ مسلمانوں کے اجتماع میں شریک عزادارتھے ۔بدھ کو کابل کے ایک اسپتال میں زیر علاج زخمیوں کی عیادت کے بعد افغان صدر نے کہا کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ انھوں نے افغانستان میں ایک انتہائی اہم مذہبی دن کے موقع پر کارروائی کی ہے۔ بلاشبہ یہ افغانستان، اس کے عوام اور اسلام کے جارحیت ہے۔صدرکرزئی اس ہفتے بون میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے لیے جرمنی گئے ہوئے تھے اور وہاں سے انھیں سرکاری دورے پر برطانیہ جانا تھا لیکن افغانستان خاص طور پر کابل میں بم دھماکے کے بعد وہ دورہ لندن منسوخ کرکے بدھ کو وطن واپس پہنچ گئے۔حالیہ برسوں میں شیعہ سنی فرقہ وارانہ فسادات عراق اور پاکستان میں دیکھنے میں آئے ہیں لیکن افغان دارالحکومت میں کی گئی کارروائی کے بعد جنگ سے تباہ حال افغانستان میں روز مرہ زندگی کے لیے اب ایک نیا خطرہ پیدا ہونے کے خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے۔مزید برآں صدر کرزئی کے نئے الزمات سے پاکستان اور افغانستان کے کشیدہ تعلقات میں مزید بگاڑ کے امکانات بھی پیدا ہو گئے ہیں۔منگل کی رات دیر گئے صحافیوں سے گفتگو میں پاکستانی وزیر داخلہ رحمن ملک نے کابل بم دھماکے میں لشکر جھنگوی کے ملوث ہونے کی اخباری اطلاعات پر براہ ست تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغان حکام نے اگر اس سلسلے میں رابطہ کیا تو پاکستان ہرممکن تعاون کے لیے تیار ہے۔اگر کوئی لشکر جھنگوی سے تربیت لے کر گیا ہے اور افغان حکومت کے پاس اس کے شواہد موجود ہیں تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس سلسلے میں کارروائی کو یقینی بنایا جائے گا۔تاہم رحمن ملک نے افغان حکام کو بے بنیاد الزام تراشی سے گریز کرنے کا مشورہ دیا۔ میڈیا میں رپورٹ آنے کی بجائے اگر افغان وزیر داخلہ مجھے فون کر دیتے تو میں ان کو تفصیل فراہم کرتا۔کابل میں شعیہ مسلمانوں پر حملے کے چند گھنٹوں بعد ہی اپنے آپ کو لشکر جھنگوی العالمی تنظیم کا ترجمان بتانے والے ایک غیر معروف شخص، ابو بکر منصور نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو ٹیلی فون کر کے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ لیکن ان اس دعوے کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی اور نہ ہی لشکر جھنگوی نے پاکستان میں کوئی بیان جاری کیا ہے۔پاکستان میں بھی شیعہ برادری کے خلاف مہلک حملوں کی ذمہ داری لشکر جھنگوی قبول کرتی آئی ہے۔ باور کیا جاتا ہے کہ یہ سنی شدت پسند تنظیم القاعدہ اور دیگر عسکری تنظیموں کے ہمراہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سرگرم ہے۔لشکر جھنگوی 2008 میں اسلام اباد کے میریٹ ہوٹل پر ٹرک بم دھماکے میں بھی ملوث تھی جس میں غیر ملکیوں سمیت 55 لوگ مارے گئے تھے۔