کیا صدر کو نہیں بلکہ صدارتی کرسی کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے

Zardari

Zardari

زمانہ قدیم سے اِطبا اِس بات پر متفق رہے ہیں کہ الجھا دینے والی باتوں اور جھگڑوں سمیت کسی اِنسان پر لگائے جانے والے الزامات کا بھی اِنسانی دل و دماغ پر نہایت شدیداثرہوتاہے اور یہی وجہ ہے کہ اِنسان جلد یا بدیر امراضِ قلب یا اعصابی امراض میں مبتلاہوجاتاہے جس سے اِس کے معمولات زندگی تنگ ہوکر بڑی حد تک محدود ہوجاتے ہیں اور اِنسان جتنابھی بڑااور طاقتورترین کیوں نہ ہو وہ بھی اندورنی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا ضرور شکار ہو جاتا ہے۔ یکدم ایسے ہی جیسے اِن دنوں ہماری جمہوری حکومت کے موجودہ صدر ِعزت مآب آصف علی زرداری بھی ہیں جن سے متعلق اول روز سے ہی یہ خیال کیاجاتارہاتھا کہ یہ ملک کے ایک ایسے طاقتورترین جمہوری صدر ہیں جن پر نہ تو اپوزیشن کے وار اثرانداز ہوں گے اور نہ ہی کوئی خفیہ ہاتھ اِن کے دل اور اعصاب کو جھنجھوڑ سکتاہے مگر اِسے قوم کی بدقسمتی کہیں یا خوش قسمتی بالآخر ساڑھے تین سال بعداپنے چہیتوں کو انگلی کی نوک پر لٹوکی مانند نچانے والے ہمارے موجودہ صدر کو ایک رقہ جِسے میمو گیٹ اسکینڈل کانام دے دیاگیاہے اِس میمو نے چند ہی دلوں میں صدرکے دل اور اعصاب پر ایسااثرڈالاکہ صدر کا ساراوجود ارتعاش میںگیااور صدریکایک عارضے قلب میں مبتلاہوکر اپنادل تھام کر راتوں رات اپنے معالجین کے ہمراہ دبئی روانہ ہو گئے۔ جہاں سے اب تک اِن کی طبی حالت کے حوالے سے بہت سی مبہم خبریں آرہی ہیں جن میں ایک خبر یہ بھی ہے کہ صدرزرداری اچھے اور برے ڈاکٹروں کے گھیرے میں ہیں جن میں دل کے ڈاکٹر کم مگر آرتھوپیڈک ڈاکٹر عاصم سرفہرست ہیں جبکہ صدرکے ذاتی معالج کرنل سلمان کے مطابق صدرزرداری کی حالت قدرے بہترہے اور اِن کے تمام میڈیکل ٹیسٹ معمول کے ہورہے ہیں اور وفاقی وزیرپیٹرولیم ڈاکٹر عاصم جو آرتھوپیڈک ڈاکٹرہونے کے ساتھ ساتھ صدر کے قریب ترین دوست بھی ہیں اِن کا کہناہے صدر کو آئی سی یو میں رکھاگیاہے اور اِن کے تمام ٹیسٹ نارمل آئے ہیں۔ اِس صورت حال میں جبکہ صدر کی حالت طبی لحاظ سے تو بہترہے مگر سیاسی اعتبار سے خراب ضرورلگ ہے ایسے میںصدرکی جلدصحتبابی کے لئے جہاں برسراقتدار جماعت کے عہدیداران وکارکنان اور حکومت اتحادی جماعتیں ملک بھر میں دعائیہ اجتماعات منعقدکروارہی ہیں تو وہیں امریکی انتظامیہ بھی صدر کی اِس اچانک بیماری میں مبتلاہونے پر پریشان ہے اور اِس نے بھی وائٹ ہاوس میں امریکی تھنک ٹینک کے ہمراہ صدر زرداری کی بیماری کے بعد کی پیداہونے والی صورتحال پر غوروخوص کے دوران اپنے گاڈ سے صدر کی جلد صحتیابی کے لئے سیاسی دعا کا خصوصی اہتمام کیا اور یہ بھی غالب گمان ہے کہ امریکی انتظامیہ نے ویٹکن سٹی کے پاپائے اعظم کو بھی صدر زرداری کی ترت سیاسی بیماری سے صحتیابی کے دعائیہ عبادت کا اہتمام کرانے کابھی نوٹسفکیشن جاری کر دیا ہو گا۔ جبکہ دوسری جانب ایک امریکی جریدے فارن پالیسی میں مضمون نگار جوش راگن نے بڑے وثوق کے ساتھ یہ دعوی کیاہے کہ صدرآصف علی زرداری میموگیٹ اسکینڈل پر شدیددباو میں ہیں اور طبی بنیادوں پر صدارت کے عہدے سے مستعفی ہوسکتے ہیں اور ساتھ ہی اِس جریدے نے یہ بھی لکھاہے کہ امریکی حکومت میں یہ سوچ بڑی تیزی سے بڑھتی جارہی ہے کہ کیا صدر زرداری اپنے سنگین ہوتے معاملات میں سے دودھ میں سے مکھی کی طرح نکل جانے کا کوئی بہانہ یا راستہتلاش کر رہے ہیں جریدہ لکھتاہے کہ امریکی انتظامیہ کا ایک خیال یہ بھی ہے کہ صدر کے گردگھیراتنگ ہورہاہے اور اب یہ صرف کچھ وقت کی با ت ہے اور اِس کے ساتھ ہی امریکی جریدے نے بلا ھیل حجت یہ بھی دعوی کیاہے کہ امریکی انتظامیہ کی پاکستانی حکام سے اِن ہاوس تبدیلی کے آپشن پر بھی بات چیت جاری ہے۔ ایسے میں اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے صدر آصف علی زرداری جو اپنے سیاسی یا طبی علاج معالجے کی غرض سے دبئی گئے ہوئے ہیں اِس صورت ِحال میں اب اِن کابھی سخت ترین امتحان شروع ہوچکاہے کہ وہ اپنی بیماری اور اپنی عہدے صدارت کے حوالے سے اپنی صفائی میں واپس پاکستان آکر کیاکچھ کہناچاہیں گے…؟؟اور اِسے وقت میں کہ جب ملک کے اندر اور باہر یہ چہ میگوئیاں زورپکڑ رہی ہیں کہ میموگیٹ اسکینڈل اور این آراو پر عدالتی کے حوالے سے صدر کو نہیں بلکہ صدارتی کرسی کو اٹیک ہواہے اِس حوالے سے صدرزرداری ملک آکر اپنی پوزیشن واضح کرتے ہیں یا وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کو اِن کی خواہش اور خصوصی پیشکش کے لحاظ سے اِنہیں قربانی کا بکرابناکر پیش کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ اور اگر ایساکچھ نہیں ہے تو پھر صدر کو ہنسی خوشی پاکستان ضرورآناچاہئیاور اپنی اِس مفاد پرست اپوزیشن کا جوصدر زرادی کے ہر معاملے پر بڑی حساسیت رکھتی ہے اور صدرزرداری کے ہر اچھے برے قول وفعل پر ملک کے اندر اور باہر واویلاکرنے کا ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرتی ہے اِسے وطن واپس آکر خاموش کرنے کے اقدامات کرتے ہیںیا یوں ہی دبئی میں رہتے ہوئے امریکا یا لندن نکلنے کا کوئی کھانچہ ڈھونڈ لیتے ہیں اور اِس طرح خود کو ہر معاملے سے بچانے کا کوئی معاملہ کر لیتے ہیں۔
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم