افواہ بہت سے مونہوں سے ہو کر آنیوالی وہ بات ہے جو غیر شعوری طور پر بعض خدشات، توقعات اور آرزومندانہ تخیلات کی وجہ سے پھیلتی ہے جبکہ پروپیگنڈہ ایک غیر مسلح جنگ ہوتی ہے جس میں مہلک ہتھیار استعمال نہیں کیئے جاتے بلکہ یہ ایک طرح سے زبان یا کلام کی لڑائی ہوتی ہے۔ جس طرح ماضی کے متنازعہ مسائل، حال کے نزاعی یا مستقبل میں نزع اختیار کر جانے والے اُمور پروپیگنڈے کیلئے بہترین موضوع ہیں اسی طرح افواہ بھی پروپیگنڈے کیلئے سب سے زیادہ معاون عمل ہے۔ افواہیں عموماً زمانہ جنگ، سیاست، انتخابات ، خفیہ دورے ، نظریاتی اجلاس، فیصلوں کے نتائج کا التواء اور متنازعہ مسائل کی طوالت کے عہد میں پھیلتی ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر افواہ یا پروپیگنڈہ میں کسی حد تک سچائی ضرور پنہاں ہوتی ہے اور بعض اوقات یہی پروپیگنڈہ یا افواہیں حقیقت کا روپ دھار لیتی ہیں۔ ابلاغ کے تمام وسیلے پروپیگنڈے یا افواہ پھیلانے کیلئے مؤثر ذریعہ ثابت ہوتے ہیں ۔ ایک طویل عرصے سے پاکستان پروپیگنڈے اور افواہوں کی زد میں ہے لیکن ملک کے سیاسی اُفق پر اس وقت جو افواہ ایک بڑی خبر بن چکی ہے وہ صدر مملکت آصف علی زرداری کی پُراسرار بیماری کے باعث اچانک دبئی روانگی ہے۔ اس افواہ کے تانے بانے ایوانِ صدر سے جاری کردہ اُس پریس ریلیز سے جا ملتے ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ عاشورہ کے فوری بعد صدرِ مملکت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرینگے۔ اس پریس ریلیز میں صدرِ مملکت کو شریک چیئرمین پیپلز پارٹی اور افواجِ پاکستان کا سپریم کمانڈر بھی لکھا گیا تھا جنہیں سیاسی حلقوں نے انتہائی غیر معمولی قرار دیا۔ اس کے بعد سے صدر آصف علی زرداری کی صحت اور اُن کے استعفے کی افواہیں زیرِ گردش ہیں جبکہ امریکی جریدے فارن پالیسی نے ان افواہوں کو تقویت پہنچانے میں جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اس جریدے نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ صدر زرداری خفیہ میمو سکینڈل کے باعث دبائو کا شکار ہیں اور طبی وجوہات کی بناء پر صدارت سے مستعفی ہو سکتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ایبٹ آباد واقعے کے بعد امریکا سے بگڑتے تعلقات، متنازعہ میمو اسکینڈل، سانحہ سلالہ، رینٹل پاور اور این آر او جیسے معاملات کی وجہ سے ایوان صدر کئی اطراف سے دبائو کا شکار ہے۔ متنازعہ میمو اسکینڈل کے بعد اقتدار کے ایوانوں میں پس پردہ کچھ ایسی سرگرمیاں محسوس ہوتی ہیں جس سے پاکستانی سیاست میں ایک بھونچال پیدا ہو سکتا ہے۔ وکی لیکس تو بہت پہلے ہی سیاست دانوں کے پس پردہ کارنامے فاش کر چکا ہے لیکن اب منصور اعجاز کے انکشافات گویا خودکش دھماکہ ثابت ہوئے جن سے یہ راز کھل کر سامنے آیا کہ افواجِ پاکستان اور آئی ایس آئی کیخلاف جو عالمی سازش ہو رہی ہے اس میں غیر اور اپنے دونوں برابر کے شریک ہیں۔ اس خفیہ مراسلے کی کڑیاں براہ راست ایوانِ صدر سے جا ملتی ہیں۔ امریکہ میں تعینات سابق سفیر حسین حقانی کے استعفیٰ سے اس متنازعہ میمو کا ڈراپ سین تو ہو گیا لیکن سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ استعفیٰ جہاں صدر آصف علی زرداری کی ڈگمگاتی حکومت کیلئے ایک چنگاری ثابت ہوگا وہیں پاک امریکہ تعلقات میں دوریوں کی ایک نئی شروعات ہے۔اس متنازعہ میمو میں کتنی صداقت ہے یہ عدالتی کمیشن کا فیصلہ آنے پر ہی معلوم ہوگا لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ماضی میں ہمارے سیاست دان اپنے مختلف مقاصد اور اہداف کے حصول کے لیئے اسلام آباد میں تعینات امریکی سفیر سے ملاقاتیں کرکے مدد طلب کرتے رہے ہیں۔ پاکستانی سیاست دانوں کے اس طرز عمل سے جہاں ان کا امریکہ پر اعتقاد ظاہر ہوتا ہے وہیں یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ امریکا پاکستان کے اندرونی معاملات میں کافی اثرورسوخ رکھتا ہے۔ امریکی سفارتی حلقوں کے ساتھ ساتھ امریکی فوج کے اعلیٰ حکام بھی پاکستانی سیاست میں سرگرم نظر آتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد سے امریکا کی ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت بڑھ گئی ہے اور اس کام میں ہمارے حکمران برابر کے شریک ہیں۔ اہلِ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ ہمارے پاس افواجِ پاکستان اور آئی ایس آئی کی صورت میں دو منظم ادارے موجود ہیں جو دشمن کے ناپاک عزائم خاک میں ملا رہے ہیں۔ ان دونوں اداروں نے نہ صرف اپنے وجود بلکہ ملک کیخلاف ہونیوالی سازشوں کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا اور آج اہل پاکستان کو ان دونوں اداروں پر فخر ہے۔ خفیہ میمو کے تمام مندرجات ملک سے غداری کے زمرے میں آتے ہیں جبکہ حکومتی حلقے اسے صدرِ مملکت اور جمہوریت کیخلاف ایک سازش قرار دیتے ہیں۔ بہرحال جب تک خفیہ مراسلے کے اصل حقائق منظرعام پر نہیں آتے اس وقت تک کسی کو بھی مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا ۔ عین ممکن ہے کہ یہ خفیہ مراسلہ بھی پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو آپس میں لڑانے کی ایک عالمی سازش کا حصہ ہو لیکن جس طرح حسین حقانی سے استعفیٰ طلب کیا گیا اس سے یوں لگتا ہے کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔ امریکی صدر بارک اوباما سے ٹیلیفونک گفتگو کے فوری بعد صدر مملکت کی پُراسرار بیماری صرف پاکستان ہی نہیں مغربی میڈیا میں بھی دلچسپی کا سبب بنی ہوئی ہے اور وہ اس حوالے سے حکومتی بیانات اور قیاس آرائیوں پر حیرت کا اظہار کر رہے ہیں۔بعض مبصرین صدر زرداری کی اس پُراسرار بیماری کو پاکستان کے اندر تبدیلی سے جوڑ رہے ہیں۔ حکومتی نمائندوں کے متضاد بیانات اور بلاول بھٹو زرداری کے ایوانِ صدر میں ڈیرے ڈالنے سے یہی تاثر ملتا ہے کہ پس پردہ کوئی گیم پلان ہو رہی ہے۔ امریکی فوجی حلقوں میں اثرورسوخ رکھنے والے پاکستان کے ممتاز تجزیہ نگار نجم سیٹھی نجی ٹی وی کے پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ صدر زرداری وطن واپس نہیں آئیں گے کیونکہ میموگیٹ اسکینڈل پر عدالتی فیصلہ عنقریب متوقع ہے اور وہ ملک سے باہر رہ کر عدالتی فیصلے کا انتظار کرینگے۔ اگر ان کے خلاف نتیجہ برآمد ہوا تو وہ مستقل خودساختہ جلاوطنی اختیار کیئے رکھیں گے اور حالات کے اتار چڑھائو پر بیرون ملک رہ کر ہی پارٹی کے معاملات چلائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو متحرک کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔صدر زرداری کی واپسی میں تاخیر نجم سیٹھی صاحب کے تجزیئے کو تقویت پہنچا رہی ہے جبکہ اب گلف نیوز نے بھی صدر کے قریبی ساتھی کے حوالے سے خبر شائع کر دی ہے کہ آصف علی زرداری دو ہفتے تک دبئی میں ہی قیام کرینگے۔ یہ افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ صدر نے بدعنوانی اور میمو اسکینڈل کے معاملات میں تحقیقات سے بچنے کے لیئے بیرون ملک جانے کا فیصلہ کیا۔ صدر زرداری کے استعفے اور پس پردہ تبدیلی کی خبریں قومی اور بین الاقوامی میڈیا کا موضوع تو بنی ہوئی ہیں لیکن ابھی تک ان خبروں کی تصدیق کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ صدر کسی بھی وقت استعفیٰ دے سکتے ہیں البتہ حکومتی نمائندوں کے متضاد بیانات، صدر زرداری کی واپسی میں تاخیر اور بلاول بھٹو زرداری کے ایوانِ صدر میں ڈیرے ڈالنے سے یہی تاثر ملتا ہے کہ ملکی سیاسی اُفق پر جلد کوئی بڑی تبدیلی رونما ہونے والی ہے۔ وزیراعظم گیلانی اور چیئرمین سینٹ فاروق نائیک کیساتھ اہم ملاقاتوں کے بعد صدرِ مملکت کی اچانک دبئی روانگی کے بعد جو چہ میگوئیاں شروع ہوئیں وہ تاحال جاری ہیں اور اُس وقت تک جاری رہیں گی جب تک صدر مملکت صحت یاب ہو کر پاکستان واپس نہیں آتے۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ عدالتی فیصلے میں تاخیر کے باعث افواہوں کا خاتمہ کرنے کیلئے آصف علی زرداری وطن واپس لوٹ آئیں گے اور جیسے ہی میمو اسکینڈل بارے فیصلہ قریب ہوگا پھر منظر سے غائب ہو جائیں گے یا پھر دبئی میں ہی بیٹھ کر اس عدالتی فیصلے کا انتظار کرینگے۔تحریر: نجیم شاہ