این آر اوپر عدالت عالیہ کا فیصلہ اور میمو گیٹ اسکینڈل کو صدر زرداری دل پر لے گئے ہیں۔جس کی وجہ سے صدرِ مملکت کی حالت اچانک بگڑ گئی ۔ پیپلز پارٹی کے ہر سیکشن سے اس بیماری کے بارے میں متضاد خبریں گشت کرتی رہی ہیں۔دوسری جانب ہسپتال کے ذرائع ان سب سے مختلف خبریں دے رہے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کی بات کو سچ مانا جائے؟ اور کون غلط بیانی کر رہا ہے؟ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم گیلا نی کی بلی چڑھا چاہتی ہے۔جس انہوں نے ایک دو دن قبل ہی ذکر کیا تھا۔کیونکہ انہوں نے خود اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ اگر قربانی کا وقت آیاتومیں خود قربانی دونگا کیونکہ میں حکومت کا چیف ایگزیکٹیو میںہو ں غا لباََ اُن کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ میمو گیٹ اسکینڈل میں جس اعلیٰ شخصیت کا ذکر کیا گیا ہے وہ وزیر اعظم کی ذات ہےَ حالانکہ منصور اعجاز اپنے بعد کے بیانات میں یہ بات بھی واضح کر چکے ہیں کہ وہ اعلیٰ شخصیت صدر زرداری کی ہی ذات ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے کمیشن بنانے کے اعلان کے ساتھ ہی حکومتی ایوانوں میں لرزا ساطاری ہوتا دکھائی دیا ہے۔صدر کے ترجمان تو اس معاملے پر کچھ نہ بو لے ۔ مگر بابر اعوان خوب گرج گرج کربولے ،اتنا بولے کہ تمام جیالوں کو پیچھے چھوڑ گئے۔یہ ہوتی ہے شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری۔ دیکھے ہیں بہت ہم نے انجام محبت کے آغاز بھی رسوائی انجام بھی بھی رسوائی پاکستان کے ایک موقر جریدے نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے آرٹیکل 6سے بچنے کے لئے رحمان ملک کے کہنے پریہ محفوظ راستہ اختیار کیا ہے۔ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ سے پاکستانی سفیر حسین حقانی کی پاکستان آمد کے بعد صدر آصف علی زرداری کو بتا دیا گیا تھا کہ پاک فوج کے خلاف سازش کرنے کے جرم میں یا تو وہ خود استعفےٰ دیدیںیا آئین کی دفعہ 6کاسامنا کرنے کے لئے تیار ہوجائیں۔پھر یہ اعلا ن بھی کر دیا گیا کہ پیپلز پارٹی کے قائم مقا م چیئر مین اور فوج کے سپریم کمانڈر صدر آصف علی زرداری محرم کے فوراََ بعد پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلا س سے خطاب کریں گے۔ جو ہمیں لگتا ہے کبھی نہیں ہوگا۔شائد یہ اعلان ان لوگوں پر اثر انداز ہونے کے لئے کیا گیا تھا جو منصور اعجاز سے میمو گیٹ اسکینڈل کی مکمل معلوما ت لے کر وطن واپس لوٹے تھے۔ہائے اُس زود پشیماں کا پشیماں ہونا کے مصداق صدر مملکت کی حالت قابو سے باہر ہوئی تو انہیں دوبئی کے ایک امریکی ہسپتال لیجایا گیا ۔خبروں کے مطابق جہاں انکی حالت ان سطور کے لکھنے تک بہتر نہ تھی۔ تاہم امریکی صدر بارک اوبامہ بھی ان کی صحت کی خرابی کی وجہ سے خاصے مضطرب دکھائی دیئے۔جس سے محسوس ہوتا ہے کہ امریکیوں کو صدر زرداری کی کس قدر فکر ہے !!! کیونکہ اس وقت وہ امریکہ کے افغانستان سے بھاگنے میں ان کی اہم ضرورت ہیں۔ان تمام باتوں کے علاوہ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ صدر آصف علی زرداری کی ناسازیِ طبع پاکستان کی سیاست میں گمبھیر مسائل کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ان طبیعت خراب ہونے سے پہلے انکے حلیفوں کو گش آنے لگے۔ادھر ان کی بیماری کی چھٹی پر رونگی کی خبر یں آئیں فوراََ ہی ان کے تینوں حلیفوںالطاف حسین،اسفند یار ولی اور چوہدری پرویز الٰہی نے ٹیلی فوں کر کے صدر کی خیریت دریافت اور انہیں ڈھیر ساری دعائیں دیں اور نیک خوہشات کا اظہار کیا۔مسلم لیگ ن کے احسن اقبال نے صدر کی بیماری پر تبصرہ کرتے ہوے کہا ہے کہ اللہ انہیں لمبی عمر دے مگر عوام حکومت کے ہارٹ فیل کی دعائیں کر رہے ہیں۔ ایک امریکی جریدے ”فارن پالیسی”نے صدر زرداری کی ناسازیِ طبیع پر جوش راگن کاایک دلچسپ اور قابلِ غور کالم شائع کیا ہے۔جس میں دعویٰ کیا گیاہے کہ صدر آصف علی زرداری طبی بنیاد پر مستعفی ہو سکتے ہیں…!!!کیونکہ صدر زرداری کے گرد گھیرا تنگ ہوچکا ہے۔اس معاملے سے نکلنے کے راستے کھوجے جا رہے ہیں دوسری جانب امریکی حکومت بھی اِن ہائوس تبدیلی کے آپشن پر بات کر رہی ہے۔فارن پالیسی کے مضمون نگار نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ صدر آصف علی زرداری میمو گیٹ اسکینڈل کی وجہ سے شدیدذہنی دبائو کا شکار ہیں۔ امریکہ کی حکومت میں بھی یہ سوچ بڑھتی جا رہی ہے کہ اس وقت صدر زرداری جو ان کے لئے اہم ہیں،پربہت دبائو ہے۔ تاہم اس بات کی تصدیق کے ذرائع محدود ترین ہیں کہ صدر زرداری فوری استعفےٰ دینے کے موڈ میں ہیں یا نہیں؟؟؟جوش راگن کے اس بیان پر بغیر سوچے سمجھے تصدیق کی مہر ثبت نہیں کی جا سکتی ہے اور ان باتوں پر فوری یقین کرنا بھی بہت مشکل امر ہے۔ تاہم ہیلری کلنٹن کے صدر زرداری کے حق میں دیئے جانے والے بیان سے تو ایسا لگتاہے کہ وہ امریکی وزیر خارجہ ہونے کے باوجود صدر آصف زرداری کی صدارتی ترجمان بھی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ صدر زرداری کی وطن واپسی سے متعلق کسی کو شبہ نہیں ہونا چاہئے….قیاس آرائیوں کا کوئی جواز نہیں ہے۔وہ جلد صحت یاب ہوکر ذمہ داریاں سنبھال لیں گے!!!بڑے تعجب کی بات یہ ہے کہ ہیلری نے برسلز میں نیٹو وزرائے خارجہ کے اجلاس کے بعد یہ بیاں بغیر کسی موقع محل کے داغ کر ایک جانب زرداری کی حمایت کا حق ادا کیا ہے تو دوسری جانب حکومت کو پھُسلانے کی کوشش کی ہے ۔تاکہ پاکستان سے وار آن ٹیرر میں اپنا الو سیدھا کر سکیں۔لوگ سوال کر رہے ہیں کہ ہیلری امریکی وزیر خارجہ ہونے کے ساتھ کیا پاکستان کی صدارتی ترجمان بھی ہیں؟صدارتی ترجمان کا یہ عہدہ کب اور کس نے انہیں عطا کیا؟ساری دنیاصدر آصف علی زرداری کے مستعفی ہونے پر تبصرے کر رہی ہے۔مگران کے حمائتی پوری قوت کے ساتھ صدر زرداری کو دلاسے دے رہے ہیں ایک جانب چوہدری شجاعت کہہ رہے ہیں کہ مستعفی ہوگا تیرا باپ!!! صدر مستعفی نہیں ہون گے وہ پانچ سال کے لئے صدر منتخب ہوے ہیں۔تو دوسری طرف وزیر اعظم گیلانی کہتے سنے جا رہے ہیں کہ صدر کے مستعفی ہونے کی خبریں بے بنیاد ہیں۔وہ تو علاج کے لئے بھی بیرون ملک جانے کے لئے تیار نہیں تھے۔باہمی مشورے سے انہیں باہر بھیجا گیاہے!!کیونکہ اگر میمو گیٹ اسکینڈل میں کچھ نکل آیا تو پھرآئین کا آرٹیکل 6 اپنا کام دکھائے گا اور پھر ڈھیر ہوجائے گا خوبوں کا حسیں تاج محل…..اُس وقت بابر اعوان کی چرب زبانی بھی کچھ کام نہ آسکے گی۔ اور پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ دل کولگی کو دل ہی جانے!!!یہ بات اور بھی شکوک کو جنم دے رہی ہے کہ پیپلز پارٹی کے کو چیئر مین کے ملک سے نکالے جانے کے ساتھ بلاول زرداری کو کو جین سے نکال کر چادر میں لپیٹ کر قوم کے سامنے پیش کر کے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ صدر زرداری کے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا بلاول زرداری تو ہے نا!!!۔پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشیدshabbir4khurshid@gmail.com