سپریم کورٹ میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور ڈی جی، آئی ایس آئی جنرل احمد شجاع پاشا نے اٹارنی جنرل کے ذریعے جمع کرائے گئے جوابات میں کہا گیا ہے کہ میمو کا معاملہ ایک حقیقت ہے اور اس معاملے میں مکمل تحقیقات ہونی چاہئے کہ اس کے پیچھے کون ہے۔ انہوں نے اپنے جواب میں کہا کہ 24 اکتوبر کو ڈی جی آئی ایس آئی جنرل پاشا نے ان کو میمو کے معاملے میں بریفنگ دی۔ جنرل پاشا کے مطابق بھیجے گئے میمو کے ثبوت موجود ہیں اور جنرل پاشا کی رائے میں یہ ثابت ہوا ہے کہ حسین حقانی کا منصور اعجاز سے رابطہ ہے اور ان دونوں نے فون پر بات بھی کی۔ میمو کے معاملے میں حسین حقانی کا تعلق ثابت ہوتا ہے۔ حسین حقانی اور منصور اعجاز دونوں کے درمیان ٹیکسٹ پیغامات کا بھی تبادلہ ہوا ہے۔ جنرل کیانی نے کہا کہ یہ میمو امریکی جوائنٹ چیف آف اسٹاف مائیک مولن کو بھجوایا گیا۔ 8 نومبر کو مائیک مولن نے میمو ملنے سے انکار کیا لیکن بعد میں تصدیق کر دی گئی اور لکھے گئے آرٹیکل کے مطابق ایک پاکستانی اہلکار نے امریکی حکومت کو میمو بھجوایا۔ میمو ایک حقیقت ہے۔ میمو بھیج کر فوج اور قومی سلامتی کے خلاف سازش کی گئی۔ اس معاملے پر وزیراعظم سے اصرار کیا تھا کہ حسین حقانی کو بلایا جائے تاکہ وہ ملکی قیادت کو اس معاملے میں بریف کر سکے کیونکہ یہ معاملہ بہت اہم ہے اور جتنا سچ جان لیں اہم ہو گا۔ میمو کے خیال اور اجرا سمیت تمام حالات کا جائزہ لیا جانا چاہئے۔ میمو سے پاکستانی فوجیوں کا مورال گرانے کی کوشش کی گئی۔ جنرل کیانی نے کہا کہ وزیراعظم نے حسین حقانی سے استعفی لیا۔