ہمارے شہر کراچی کویہ کمال کا اعزاز حاصل ہے کہ یہاں قدم قدم پر پورے ملک سے آئے ہوئے ایسے محب وطن سمجھے اورسُلجھے ہوئے لوگ رہائش پزیر ہیں جو دن رات ملک و قوم کی تعمیر وترقی میں متحرک رہتے ہیں تو وہیں اِس شہر کا یہ بھی عجب حال ہے کہ یہ شہر بعض معاملات میں بلکل بے بس اور لاچارہوکررہ جاتاہے خاص طور پر یہ موسم کے حوالے سے ہمیشہ سے ہی نہتہ رہاہے اِس پر ملک کے دوسرے صوبوں اور شہروں سے آنے والے ٹھنڈے اورگرم موسم ہی ہمیشہ سے اثر انداز ہوتے رہے ہیں اوراِس کے ساتھ ہی ہمیں معاف کیجئے گااور یہ بھی کہنے دیجئے کہ ملک کے دوسرے صوبوں اور شہروں سے یہاں آنے والے موسموں کی طرح اِس کی سیاست کا بھی ماضی میں ایساہی کچھ حال ہواکرتاتھا جِسے سیاست دان بناناہوتاتو وہ بھی اپنے صوبوں کے موسموں کی طرح کراچی کا رخ کرتا اورنشترپارک میں دوچار جلسے اورشہر کی اِنتہائی معروف اور مصروف ترین شاہراہوں ( بالخصوص ایم اے جناح روڈ یا پھر ریگل چوک )پر حاکم الوقت کے خلاف جلوس اور ریلیاں نکال کراپنی سیاست کا آغازکرتااور پھر یہیں سے دیکھتے ہی دیکھتے ملک کا طاقتورترین سیاستدان بن کر اُبھرتا مگروہ تو اچھا ہی ہوا کہ گزشتہ تین ،ساڑھے تین دہائیاں قبل اِس شہرکراچی کے ریئل سپوتوں نے اپنی سیاسی جماعت بنائی تو تب سے دوسرے صوبوں سے یہاں آنے والے کئی نومولود سیاستدانوں کا کراچی میں سیاسی ہاؤس جاب کا سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بندبھی ہواتو رفتہ رفتہ ختم بھی ہوگیا۔ گویا کہ اِن پر ایسی کیل ٹھونک دی گئی کہ اَب اگر کوئی ایساشخص جو سیاست کے میدان میں قدم رکھنے کا خواہشمند ہوتاتو اُس نے شہرکراچی کے نوجوانوں کی سیاسی پارٹی کا نظم ونسق دیکھ کر کراچی کی جانب رخ کرنے سے اپنے قدم روک لئے اور وہ اپنے ہی صوبے اور شہرمیں رہ کر سیاسی داؤ پیچ سیکھنے لگا پھر آہستہ آہستہ وہیں سے ہی ملکی سیاست میں نمودار ہوا اگرچہ یہ سیاسی چکر اَب بھی جاری ہے اور ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ جب تک ہمارے یہاں موجودہ حکمرانوں جیسے سیاستدان اور حاکم الوقت ہم پر قابض ہوتے رہیں گے ہمیشہ ہی ملک کے ہر صوبے سے کوئی نہ ایسانڈر اور بیباک نوجوان ملکی سیاست میں آتارہے گا جس کا ہمیشہ مقصد موجودہ بے حس اور ناقص منصوبہ بندیوں کے ساتھ حکمرانی کرنے والے جیسے حکمرانوں سے نجات دلاناہوگا۔ بہرحال ہم بات کررہے تھے کراچی کے موسم کی تو اِن دِنوں ملک کے دیگر صوبوں اور شہروں سے آنے والی یخ بستہ ہواؤں نے ہمارے شہرِکراچی کے موسم بھی معمول سے کہیں زیادہ سرد ترین بنادیاہے اور ایسے میں ایک روزہم شام ڈھلتے ہی جسم کو برف کی طرح جمادینے والی ٹھنڈی ہواؤں سے بچ کراپنے گھرمیں دبکے بیٹھے ہوئے تھے کہ باہر یخ بستہ ہواؤں کے تھپیڑوں کے ساتھ کسی نے ہمارے گھر کے مین گیٹ کو زور زور سے پیٹناشروع کردیاچوں کہ یہ ٹائم بجلی کی لوڈشیڈنگ کا تھا اِس وجہ سے گھر سے باہر کھڑے شخص نے برقی گھنٹی کا استعمال مناسب نہیں سمجھااِس لئے اُس نے روائتی انداز سے ہمارے گھر کے آہنی گیٹ کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پیٹ پیٹ کر اپنی موجودگی کا احساس دلایا اور جب ہم باہر آئے تو پتہ چلاکہ چاچا رفیق احمد ہیں جوکافی عرصے بعداِس سرد موسم میں ہم سے ملنے آئے ہیں اِن سے بغل گیرہوتے ہی ہم اِنہیں تکریم کے ساتھ ڈرائنگ روم میں لے آئے اُنہوں نے گرماگرم کافی کی چسکیاں بھرتے ہوئے حسب عادت ملکی سیاست اور حکومتی کارکردگی کا تذکرہ انتہائی جوشیلے انداز سے کچھ اِس طرح کیاکہ ایک لمحے کو ہمیں یہ محسوس ہواکہ جیسے وزیراعظم ہمارے درمیان موجود ہیں چاچارفیق احمد نے وزیراعظم کو مخاطب کرکے کہنا شروع کیاکہ… ”ارے..!وزیراعظم صاحب…! بھاڑ میں جائے تمہاری ایسی جمہوری حکومت اور جمہوریت کا طوق جو عوام کو کنگال کرکے اِنہیں خودکشیوں پر مجبورکردے ”یہ وہ جملہ تھا جسے چاچا رفیق احمد نے ایک سانس میں بغیردم لئے اداکردیاتھا اور ہم نیم تاریک کمرے میں اِن کا منہ تکتے رہ گئے تھے اِن سے نہ رہاگیااور اُنہوں نے مزید کہاکہ” دیکھو دیکھو میاں یہ جمہوری حکومت ہے …؟ کیاایسی بھی دنیا کے کسی ملک کی جمہوری حکومت ہوئی ہے جو اپنے لئے تو جمہوری ہو اور عوام کے مسائل کے حل سے کنارہ کشی اختیارکرتی رہے…؟ اور ہمارے یہاں جو جمہوری حکومت ہے …؟اِس کی مثال اگر چاردانگ عالم میں چراغ لے کر بھی ڈھونڈی جائے تو ایسی جمہوری حکومت کہیں نہیں ملے گی … آج بدقسمتی سے جیسی جمہوری حکومت اور جمہوریت کے بڑے بڑے دعوے کرنے والے ہمیں ایسے حکمران نصیب ہوئے ہیں جن کی اُونٹ کی کل کی طرح کوئی کل چار سال میں بھی سیدھی نہیں ہوسکی ہے….؟؟ کیاایسے دنیاکے کسی جمہوری ملک کے جمہوری حکمران ہوتے ہیں جو خود کو تو جمہوری خول میں قید کئے رکھیں مگر اپنے عوام کی دادرسی کرناپھو ل جائیں …؟اورکیا اِس ہی لئے ہم نے اِن حکمرانوں کو اقتدار کے تخت پر بیٹھایاتھاکہ یہ عوام کو ہی بھول جائیں اور اپنے لئے ہی ہر وہ ناجائز کام کریں جن میں اِن کے اپنے مفادات پوشیدہ ہوں …؟؟اور کیایہی ہماری جمہوری حکومت ہے جو چار سال گزار کر بھی عوام کو کسی قسم کا کوئی ریلیف نہیں دے سکی ہے…؟اور کیایہی جمہوریت ہے کہ عوام سے اِن کے درینہ مسائل کے حل کے لئے کئے گئے وعدوں اور دعوؤں کو پس پست ڈال کر قومی خزانے کو حکمران اپنی عیاشیوں کے لئے ہی خالی کرتے رہیں …؟اور اِس پر ستم ظریفی یہ کہ ہمارے وزیراعظم جو خود کو سیدزادہ بھی کہلانے میں فخرِ عظیم تصور کرتے ہیں توہمارے یہی وزیراعظم عوام کے سامنے خود کو مظلوم اور اپنی حکومت کی اَب تک کی کارکردگی کو اطمینان بخش ظاہر کرنے کے خاطر سرکای اور نجی تقاریب اور اپنے بیانات میں یہ کہتے پھریںکہ اِن کی مثالی جمہوری حکومت نے عوام اور ملک کے مستقبل کو روشن اور تابناک بنانے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے اِس وجہ سے اِن کی اِس کامیاب ترین جمہوری حکومت کے خلاف ا پوزیشن اور کچھ خفیہ ہاتھ سازشوں میں مصروف ہیں اور اِن سازشوں میں ”فرشتوں ” کو متحرک کیاجارہاہے ….” چاچارفیق احمد تھے کہ وہ نان اسٹاپ بولے چلے جارہے تھے اور ہم خاموشی سے ایک حد تک تو اِن کی وہ تمام باتیں جو وزیراعظم اور اِن کی جمہوری حکومت سے متعلق سوالات کی صورت میں تھیں پہلے سُنتے رہے بالآخر جب ہمارا بھی برداشت کا پیمانہ لبریز ہواتو ہم نے بھی حکومت کی شان میں ایسا ہی قصیدہ پڑھاناشروع کردیا جیساکہ چاچارفیق احمد پڑھ رہے تھے اَب ایک طرف ہم تھے اور دوسری جانب چاچارفیق احمدتھے جو موجودہ عوامی اور جمہوری حکومت کی چارسالہ کارکردگی سے مایوس ہوکراپنے اپنے دل کی بھڑاس اپنے اپنے انداز سے نکال رہے تھے اور یوں ہم ایک دوسرے کو مطمئن کرنے اور پریشان کرنے کا سلسلہ رات گئے تک جاری رکھے ہوئے تھے مگرہمیں یادپڑتاہے کہ اِس دوران کوئی ایک بھی ایسانقطہ یا موڑ نہیں آیا کہ جس پر ہم نے حکومتی کارکردگی پر ذرابھر بھی سُکھ کا کوئی سانس لیاہو … بہر کیف !وہ تو اچھاہواکہ رات کی سیاہ چادر چاک ہوئی اور صبح کی سفید دھاری نمودار ہوئی تو ہم نے اذانِ فجر کے بعد خاموشی اختیار کی اور پھر نمازِ فجر کی ادائیگی کرکے سونے کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے ۔ اگرچہ اِس میں کوئی شک نہیں کہ آج جس مایوس کُن کیفیت سے ہم دوچار ہیں اِسی طرح ہمارے ملک کا ہر وہ غریب جو بجلی، گیس، پانی، سستی خوراک ، اچھی تعلیم ، اچھی سفری سہولت ،اچھی صحت اور اچھی علاج و معالجہ کی سہولت سے محروم ہے وہ بھی گزررہاہے اور وہ بھی ہماری طرح کسی بندکمرے میں رات کی ابتداسے لے کے اِس کے اختتام تک اورپھر صبح ہونے تک اپنے سینے میں حکومت اور حکمرانوں کی چارسالہ کارکردگی کے خلاف بھڑکتے جذبات کو اُگل کر خاموش بیٹھ جاتاہوگا مگراِس کے ساتھ ہی وہ کبھی اپنے دل اور ضمیر کی روشنی میں اپنے آپ کو اور کبھی ا پنے حکمرانوں کو بھی ضرور کوستاہوگااِس موقع پر ہم اِنتہائی ندامت اور مایوسی سے یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کیوں کہ ہم ہی ایسے(بُرے) ہیں جیسے ہمارے حکمران ہیں اگرآج ہمیں اپنے لئے اچھے حکمران چاہئیں تو ہمیں بھی اتنی سی کوشش ضرور کرنی چاہئے کہ ہم پہلے خود ٹھیک ہوجائیں تو پھر ہمارا اللہ رب العزت ہم پر اپنے وعدے کے مطابق اچھے اور ایماندار حکمران بھی مسلط کردے گا ہمیں یہ ضرور یاد رکھناچاہئے کہ جب تک ہم خود اپنے اعمال ٹھیک نہیں کریں گے اُس وقت تک ہم پر موجودہ حکمران جیسے حاکم الوقت حکمرانی کرتے رہیں گے۔اور ہم مسائل کی چکی میں پستے رہیں گے حتیٰ کہ ہم موت کی وادی میں پہنچ کر قبرکی آغوش میں کیوں نہ چلیں جائیں۔