پاکستان کی بری فوج کے صدر دفتر پر حملے کے الزام میں حراست میں لیا گیا ایک اور ملزم پراسرار حالات میں انتقال کر گیا ہے۔عبدالصبور کے بارے میں پاکستان کے انٹیلیجنس اداروں کے وکیل راجہ ارشاد نے گزشتہ سال سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ وہ فوجی قانون کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حراست میں ہے۔عبدالصبور کی لاش جمعہ کے روز پشاور میں ایک ایمبولینس سے برآمد ہوئی۔وہ ان گیارہ لاپتہ افراد میں شامل تھے جن کے بارے میں سپریم کورٹ کو بتایا گیا تھا کہ یہ تمام افراد آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے باعث قانونی حراست میں ہیں۔ سرکاری ذرائع نے کہا ہے کہ عبدالصبور پشاور کے ایک ہسپتال میں زیرِ علاج تھا اور اس کی ہلاکت تپ دق کے باعث ہوئی ہے۔ سرکاری ذرائع اس ہلاکت کو قدرتی موت قرار دے رہے ہیں۔پچھلے ایک سال کے دوران ان گیارہ میں سے چار افراد کی لاشیں اسی طرح کے پراسرار حالات میں برآمد ہو چکی ہیں۔محمد عامر کی لاش پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال سے پندرہ اگست کو برآمد ہوئی جبکہ تحسین اللہ کی لاش گیارہ دسمبر اور سید العرب اٹھارہ دسمبر کو اسی ہسپتال میں مردہ حالت میں پائے گئے تھے۔عبدالصبور کی نماز جنازہ سنیچر کی صبح ضلع کوہاٹ میں واقع ان کے آبائی گاں میں ادا کی گئی۔ ان کے وکیل طارق اسد نے بی بی سی کو بتایا کہ جمعہ کے روز عبدالصبور کے لواحقین کو موبائل فون کے ذریعے اطلاع دی گئی کہ ان کی لاش سڑک پر کھڑی ایمبولینس میں رکھی ہوئی ہے۔وکیل کے مطابق عبدالصبور کے جسم پر تشدد کے واضح نشان ہیں اور ان کے اہل خانہ کو ان کی بیماری یا زیرِ علاج ہونے کی اطلاع فراہم نہیں کی گئی تھی۔انہوں نے بتایا کہ عبدالصبور کے اہلخانہ کو لاش کا پوسٹ مارٹم کروانے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔اس سے پہلے برآمد ہونے والی لاشوں میں سے بھی کسی کا پوسٹ مارٹم کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی اس کے باوجود کہ ان تینوں افراد کی لاشیں لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور میں پائی گئی تھی۔طارق اسد نے کہا کہ آزاد عدلیہ کی موجودگی میں ہونے والے یہ زیرحراست قتل عدلیہ اور قانون کی حکمرانی کے منہ پر طمانچہ ہیں۔