کسی مذہب یا فرقے کا پیروکا رہونے سے پہلے انسان ہونا لازم ہے کیونکہ جانوروں پر مذہب، فرقوں، جمہوریت وآمریت کااطلاق نہیں ہوتا اس لیے وہ بڑے پرسکون انداز میں زندگی گزار تے ہیں ، انسان کو زندگی گزارنے کے لیے جن اہم چیزوں کی ضرورت ہے ان میں جمہوریت کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے جمہوریت ہو یا آمریت عوام کو اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ بھرنے کے لیے با عزت روزگار کی ضرورت ہوتی ہے ۔باعزت روزگار یعنی بھیک مانگے بغیرْاپنی مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کی آبروکومحفوظ رکھتے ہوئے ۔جس دور میں انسان کی کوئی قیمت نہ ہووہ دور جمہوری ہو یا آمرانہ ہو کچھ فرق نہیں ۔کچھ ایسی جمہوریت اس وقت رائج ہے آج کل میرے وطن میں اعلیٰ حکمران اپنے ہی بیان پر قائم نہیں رہتے مسائل گننے کا وقت بھی اب ختم ہو چکا اب تو اگر کوئی بہتری باقی ہے تو اس کی بات ہونی چاہیے ۔غریب عوام تو پچھلے 64برس سے مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں مگر آج کل پاکستان کی تاریخ کی طویل ترین جمہوریت بھی شدید مشکلات میں ہے این آر او، ایبٹ آبادآپریشن، میموگیٹ اور پھر پاکستانی چوکیوں پر نیٹو افواج کے حملے نے قوم کے ساتھ ساتھ موجودہ حکومت کو اس قدر پریشان کردیا ہے کہ آج کل عام آدمی کی مشکلات میںکمی کی بجائے ان میں اور بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے عام عوام کی مشکلات کیا ہیں ۔ روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی ، بد امنی، بے روز گاری،وسائل کم ہونے کی وجہ سے صحت وتعلیم کے حصول سے دوری،بجلی و گیس اور سی این جی کی لوڈشیڈنگ جس کی وجہ سے بے روزگاری میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے عام آ دمی کی زندگی میں اس کے علاوہ بھی بہت سی مشکلات ہیں افسوس کہ جن کو عوام کی مشکلات کا حل نکالنا تھا وہ سب مل کر جمہوریت بچانے کی جنگ لڑرہے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سیاست دان پچھلے 64سال سے جمہوریت کا رونا رو رہے ہیں لیکن عوام نہیں جانتی کہ جمہو ریت کس چڑیا کا نام ہے ۔قارئین آپ ابھی اپنے قریبی بازار چلے جائیں اورلوگوں سے سوال کریں کے جمہوریت کیا چیز ہے ۔جمہوریت کا کیا مطلب ہے۔تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ سومیں سے دو یا چار لوگ ہی جمہوریت کو تھوڑا بہت سمجھتے ہیں باقی کو جمہوریت کے بارے میں کچھ علم نہیں یہ بات اتنی حیران کن بھی نہیں جب لوگوں کو دن رات محنت مزدوری کرنے کے بعد بھی اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے دو وقت کا کھانا دستیاب نہ ہو ۔جب مائیں اپنے بچوں کو اسکول کی بجائے صرف اس لیے کسی ہوٹل یا ورکشاپ میں ڈال دیں کہ ان کے بچوں کووہاں دووقت کا کھانا مل جائے گا اور ان کے بچے بھوک سے تڑپ ترپ کر مرنے سے بچ جائیں گے ۔تب لوگوں کا دماغی توازن درست نہیں رہتا لوگ پاگل ہوجاتے ہیں ۔اورپاگلو ں کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ان کے ملک میں آمریت ہو یا جمہوریت ان کوتو اچھے معالج کی ضرورت ہوتی ہے اور اچھے سے اچھا معالج بھی تب تک کسی مریض کا علاج نہیں کرسکتا جب تک مریض کے پیٹ میں اچھی غذا نہ جائے آج کی سائنس بھی یہی کہتی ہے کہ جب انسان کے جسم کو پوری غذایت دستیاب نہ ہو تو انسان کا جسم اپنے آپ کو کھانا شروع کردیتا ہے بڑے ہی دکھ سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ آج میری قوم کاحال بھی کچھ اسی طرح کا ہے ایسے میں قوم کو کسی نئے حکمران کی نہیں بلکہ کسی مسیحا کی ضرورت ہے۔ اس کا تعلق چاہے کسی جمہوری پارٹی ہو یا نہ ہو لیکن افسوس کہ آج اہل اقتدار کو اس بات کی فرصت نہیں وہ عوام کی مشکلات کوحل کریں اور جن کے پاس اقتدار موجود نہیں ان کو بڑی جلدی ہے اقتدار میں آنے کی ایک طرف تو میاں نواز شریف کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت غیر فال ہو چکی ہے اور موجودہ حکمران ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ دوسری طرف ان کا کہنا ہے وہ جمہوری حکومت کو گرنے نہیں دیں گے میاں نواز شریف اس قسم کے بیانات سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔یہ تو وہ خود ہی جانتے ہیں یا خدا جانتا ہے۔لیکن میں یہاں میاں نوازشریف سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ جن کو سیاست دان آمر کہتے ہیں انہی لوگوں کے سہارے الیکشن جیتنے والے کس طرح خود کو جمہوریت پسند کہہ سکتے ہیں اور اگر ایسا نہیں ہے تو کیوں آج کل سیاست دانوں کی نظریں ایجنسیوں کی طرف لگی ہوئی ہیں جب کہ آج کل پاک امریکہ تعلقات کے ساتھ ساتھ پاکستا ن کی سیاسی صورت حال بھی کشیدہ اور افوائوں کابازار بھی گرم ہے ۔ کل تک میڈیا میں چرچا تھا کہ عمران خان کوایجنسیوں کی سپورٹ حاصل ہے لیکن اب صورت حال یک سر تبدیل ہوتی ہوئی نظرآنے لگی ہے جو کل تک ایجنسیوں کی طرف سے کی جانے والی سیاسی مداخلت پر سراپا احتجاج تھے آج خود اسی مداخلت کا حصہ بنتے نظر آرہے ہیں جی ہاں میرا اشارہ ن لیگ کی طرف ہے اسی موضع پر نیویارک سے شایع ہونے والا ہفت روزہ (پاکستان پوسٹ) 8دسمبر کی اشاعت میں اپنی شاہ سرخیوں میں لکھتا ہے ۔نوازشریف ،فوج،عدلیہ متحدعمران خان کی چھٹی، نگران حکومت بنانے کی تیاریاں مکمل، اقتدار کا لالچ نوازشریف کو پھر فوج کے سامنے جکنے پر مجبور کر گیا ۔اخبار مزید لکھتا ہے کہ عدلیہ میموگیٹ اور این آراوکاسہارہ لے کر حکومت کو فارغ کرے گی ،حکومتی بدعنوانی نے عوام کو جموریت سے مایوس کیاہے اسی مایوسی کااستعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے،آگے چل کر اخبا ر مزید لکھتا ہے کہ آصف زرداری کی بیماری سے پہلے ہی افوائیں گردش کرنے لگی تھی صدر بیمار پڑنے والے ہیں اور وہ علاج کے لیے بیرون ملک بھیج دئیے جائیں گے۔ کہا جا رہا ہے کہ فوج نے صدر سے استعفی مانگ لیا ہے آئندہ 72گھنٹے اہم ہیں ۔ یا درہے صدر کے استعفے کے بارے میں امریکہ کا ایک اخبار بھی ذکر کرچکا ہے ۔(پاکستان پوسٹ) کا کہنا ہے کہ نوازشریف اور شجاع پاشا کے استنبول میں ہونے والے مذاکرات کامیاب ہو گئے تھے ،لیکن مسلم لیگ نون نے یہ تاثر دیاکہ وہ فوج کے دبائو پرحکومت کے خاتمے کی سازش کا حصہ نہیں بنیں گے۔ (پاکستان پوسٹ)نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ نوازشریف کو یقین دلا دیا گیا ہے کہ جنوری کے آخر تک نگران حکومت قائم کرنے کی کوشش کی جائے گی جو آئندہ تین سے چار ماہ میں عام انتخابات کروا دے گی ۔ اخبار نے ایک اور انکشاف کیا ہے کہ نوازشریف کو منانے کے لیے عمران خان کو استعمال کیا گیا او رآئندہ بھی یہی کیا جائے گا ۔قارئین مسلم لیگ ن تو اس بات کا پہلے بھی اعتراف کر چکی ہے کہ ان کوماضی میں بھی اسٹیبلشمنٹ کی حمائت حاصل تھی لیکن عمران خان نے جس تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا اور جو سونامی چلایا تھا وہ کیا ہوا۔ عمران خان اور نوازشریف جس انقلاب کی بات کررہے ہیں یہ انقلاب بھی ماضی کی طرح سیاسی بیان بازی کا حصہ ہیں یا ان میںکوئی حقیقت بھی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔لیکن یہ طے ہے کہ اگر عام آدمی کے حالات زندگی بہتر نا ہوئے تو اس ملک جمہویت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہے گی کیونکہ جب بھوکے مرتے لوگ سڑکو ںپر نکلیںگے تو سیاست دان ان کو معطمئن نہ کر پائیں گے اور مجبورافوج کو ہی ایکشن لینا پڑے گا۔اگر سیاست دان جمہوریت کو قائم رکھنا چاہتے ہیں تو انھیں ملک کے اداروں کو بحال کرنا ہوگااورجلد ازجلد ایسے منصوبے پر عمل کرنا ہوگا جن سے عوام کی زندگی میں بہتری لائی جا سکے ۔ تحریر: امتیاز علی شاکر