سائنسدانوں نے کہا ہے کہ ہماری زمین سال دو ہزار پانچ کے بعد سے اب تک کے طاقتور ترین شمسی طوفان کی زد میں ہے۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ شمسی طوفان کے نتیجے میں زمین انتہائی توانائی والے ذرات کی بمباری کی زد میں ہے۔توانائی سے بھرپور یہ ذرات زیادہ تر سٹیلائٹس کے بارے میں فکرمندی کا سبب ہیں جن کے کام میں وہ رخنہ ڈال سکتے ہیں۔ ساتھ ہی خلابازوں کے لیے بھی یہ باعث تشویش ہے۔اس کے علاوہ بجلی کی ترسیل اور مواصلاتی نظام بھی متاثر ہو سکتا ہے۔امریکی خلائی ادارے ناسا کے موسمیاتی مرکز نے پیشن گوئی کی ہے کہ سورج سے مقناطیسی طوفان زمین کی فضا میں موجود مقناطیسی تہہ سے بائیس سو کلومیٹر فی سکینڈ کی رفتار سے ٹکرائے گا۔ سائنسدانوں کے مطابق شمسی طوفان سے جنم لینے والے بے انتہا توانائی والے یہ ذرات زمین کے قطبین کے قریب سفر کرنے والے جہازوں کے مواصلاتی رابطوں میں بھی خلل ڈال سکتے ہیں۔سائنسدان کہتے ہیں کہ یہ شمسی طوفان پیر کو پاکستانی وقت کے مطابق صبح نو بجے سورج کی سطح پر آتش فشانی کے نتیجے میں پیدا ہوا اور اس کا سبب سورج کی فضا میں جمع مقناطیسی توانائی کا اچانک اخراج بنا ہے۔اس طوفان کے اثرات بدھ کو تمام دن کرہِ ارض پر محسوس کیے جانے کا امکان ہے۔امریکی خلائی ادارے ناسا نے کہا ہے کہ انہوں نے پہلے ہی اس طوفان کے ممکنہ اثرات کا نمونہ بنا لیا ہے اور ناسا کے ماہرین نے فیصلہ کیا ہے کہ کرہِ ارض کے مدار میں موجود بین الاقوامی خلائی مرکز پر موجود چھ خلا بازوں کو اپنی حفاظت کے لیے کسی اضافی اقدام کی ضرورت نہیں ہے۔ خیال رہے کہ اکتوبر سال دو ہزار تین میں کرہِ ارض کی فضا سے ٹکرانے والے سب سے طاقت ور شمسی طوفان کی وجہ سے پیدا ہونے والی مقناطیسی شعاں سے جاپان کا ایک مصنوعی سیارہ تباہ ہو گیا تھا۔