پاکستان میں سیاسی جماعتوں نے آئندہ انتخابات کی تیاریاں تقریباً شروع کر دی ہیں اور سیاست کا مرکز نئے صوبوں کے قیام سے متعلق بحث بن چکی ہے۔ ماہرین اگرچہ اس وقت ملک میں نئے صوبوں کے قیام کی تشکیل انتہائی ناگزیر قرار دے رہے ہیں، تاہم انکے مطابق سیاسی جماعتیں اس عمل کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کی تمام توجہ مسلم لیگ ن کو کمزور کرنے کے لئے سرائیکی صوبے پر مرکوز ہے تو مسلم لیگ ن عدلیہ کے فیصلوں پر عمل میں حکومتی تاخیر اور بڑھتی ہوئی بدعنوانی کے تاثر کا بھرپور فائدہ اٹھا کر جلد از جلد نئے انتخابات کیلئے راہ ہموار کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ تاہم مسلم لیگ ن کو اس وقت کئی مسائل کا سامنا ہے، جن میں سے ایک جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی مسلم ن لیگ پر تنقید ہے، اور یہ دونوں جماعتیں بھی ن لیگ کے ووٹوں کو توڑنے پر لگی ہوئی ہیں۔تجزیہ کاروں کے مطابق جنوبی پنجاب اس وقت پی پی پی کا گڑھ ہے جبکہ شہر میں ووٹوں کی تقسیم صرف اور صرف ن لیگ کے ووٹوں کی ہی ہونا ہے، لاہور میں عمران خان کا نواز شریف کو انتخاب لڑنے کا چیلنج دینا ایک اہم بات ہے، کیونکہ کہا جا رہا ہے کہ لاہور شہر میں نوجوانوں کا خاصہ طبقہ عمران خان سے مانوس ہے، جبکہ دوسری جانب جماعت اسلامی کا ووٹ بینک بھی محفوظ ہے، اس کا نظریاتی ووٹ اسی کو ہی پڑنا ہے، اب اس صورتحال میں اگر جماعت اسلامی اور تحریک انصاف لاہور میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں بھی کر پاتیں تو اس کا فائدہ پیپلزپارٹی اور ق لیگ کو ہونا ہے۔ گوکہ اس وقت ملک میں سرائیکی، ہزارہ اور بہاولپور کو صوبہ بنائے جانے کے لئے منظم طریقے سے تحاریک چلائی جا رہی ہیں مگر حکمراں جماعت پیپلزپارٹی کی دلچسپی سب سے زیادہ سرائیکی صوبہ بنانے میں ہے اور اس کی حمایت میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے بہاولپور اور ملتان کے ہنگامی دورے اور وہ بیانات ہیں جو اس تاثر کو تقویت دیتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کسی بھی صورت نئے صوبے کی تشکیل کے لئے تیار ہے۔ کچھ روز قبل ڈاکٹر بابر اعوان کا یہ بیان کہ رمضان میں سرائیکیوں کو خوشخبری دیں گے تو یہ مسلم لیگ ن کیلئے واضح پیغام تھا کہ حکومت اس وقت جنوبی پنجاب کو سرائیکی صوبہ بنانے پر تیار ہو گئی ہے۔ بظاہر حکمراں جماعت کی قیادت کے بیانات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی رواں ماہ میں سرائیکی صوبے کے حوالے سے اعلان کر دے گی۔ تاہم ماہرین کے مطابق پنجاب میں صوبے کے قیام کے لئے اسے قومی اسمبلی و سینیٹ میں دو تہائی اور پنجاب اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کرنا ہو گی۔ حکومت کو اس کے لئے پہلے مرحلے میں پنجاب اسمبلی سے صوبے کی قرارداد منظور کرانی ہو گی جس میں اسے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، وزیر قانون رانا ثناء اللہ اس حوالے سے بیان دے چکے ہیں کہ پیپلزپارٹی پہلے پنجاب اسمبلی سے قرارداد منظور کرائے اسے لگ پتہ جائے گا، یعنی پنجاب میں نمبر گیم چلے گی، اب اس میں پی پی پی کس حد تک کامیاب ہوتی ہے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ تاہم ن لیگ کی منظور کی جانے والی قرارداد کہ پاکستان کے مزید صوبے بننے چاہیں مگر لسانی بنیادوں پر نہیں بلکہ انتظامی بنیادوں پر، یوں ن لیگ نے بھی اپنا اصولی فیصلہ سنا دیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ن لیگ صورتحال کو بھانپ رہی ہے کہ اگرانتخابات سے پہلے حکومت کی جانب سے سرائیکی صوبے کی بات ہوتی ہے تو وہ پہلے ہی اس پر تیار ہو جائے، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کا ووٹ بینک اس کی نذر نہ ہو جائے،بہتر انتظامیہ اور عوامی مسائل کے حل کیلئے ماہرین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ نئے صوبے بنائے جائیں، تاہم یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ نئے صوبے کے قیام سے متعلق عام سوچ یہی ہے کہ اس عمل سے ملک کمزور ہو گا اور جب بھی ملک کے کسی علاقے سے ایسا مطالبہ کیا جاتا ہے تو بہت سے لوگوں کے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں۔ اگر پنجاب میں نئے صوبوں کی بات کی جائے تو مسلم لیگ ن کو برا لگتا ہے، ہزارہ کو صوبہ بنانے کی بات ہوتی ہے تو اے این پی اور دیگر جماعتیں اسے ملک کے خلاف سازش قرار دیتی ہیں اور اگر کراچی کی بات کی جائے تو پیپلزپارٹی اور دیگر قوم پرست جماعتوں کی جانب سے سخت بیانات آنے لگتے ہیں۔ حالانکہ نئے صوبوں کے حامی مبصرین کا خیال ہے کہ بھارت میں قیام کے وقت تیرہ صوبے تھے اور سات یونٹ (آزاد) کو ملا لیا جائے تو 35 صوبے بنتے ہیں، افغانستان ساڑھے تین کروڑ آباد ی کا ملک ہے جس کے 34 صوبے ہیں، ایران میں ساڑھے چھ کروڑ کی آبادی کے لئے 34 صوبے ہیں، امریکا دنیا کا سب سے مضبوط ترین ملک ہے جس کی آبادی 35 کروڑ سے زیادہ ہے اور اس کی 50 ریاستیں ہیں، سوئٹرز لینڈ کی صرف 65 لاکھ کی آبادی کے لئے 26 صوبے ہیں، تو پھر پاکستان کی اٹھارہ کروڑ آبادی کے لئے صرف چار صوبے کیوں؟ دوسری جانب مبصرین کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی خواہش ہے کہ جلد از جلد ملک میں نئے انتخابات کا انعقاد کرایا جائے کیونکہ مارچ میں سینیٹ کے انتخابات ہونیوالے ہیں اور موجودہ حکومت اگر قائم رہی تو پیپلزپارٹی کو سینیٹ میں بھی اکثریت حاصل ہو جائے گی اور یہ پہلی بار ہو گا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پیپلزپارٹی سینیٹ بھی میں اکثریت حاصل کر لے گی۔ اس کے لئے مسلم لیگ ن کی جانب سے حکومت کے خلاف گرینڈ الائنس کی تشکیل کی ناکام کوشش کے بعد اب اس کی پوری توجہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر حکومتی تاخیر اور ملک میں بدعنوانی کے تاثر کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومتی رخصتی کی کسی نئی صورت پر ہے، تاہم موجودہ صورتحال میں ن لیگ کی قیادت صرف گو زرداری گو کے نعرے لگوانے کے علاوہ کچھ اور کرنے کے قابل نظر نہیں آتی۔تحریر:ساحرقریشی