توہین عدالت کیس میں وزیراعظم کی کورٹ اپیل پر، چیف جسٹس کی سربراہی میں آٹھ رکنی بنچ سماعت آج کریگا سپریم کورٹ نے وزیر اعظم پر فرد جرم عائد کئے جانے کے حکم کے خلاف وزیر اعظم کی اپیل ابتدائی سماعت کے لئے منظور کر لی ہے۔ وزیر اعظم کی جانب سے ان کے وکیل اعتزاز احسن نے وزیر اعظم پر فرد جرم عائد کئے جانے کے فیصلے کے خلاف اپیل میں پچاس سے زائد قانونی نکات اٹھائے ہیں۔
اپیل میں اٹھائے گئے نکات میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے وزیر اعظم کے وکیل کو اپنے دلائل مکمل کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا اور نہ ہی فیصلہ دینے سے پہلے وکیل سے یہ پوچھا کہ وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ عدالت نے وکیل کو اچانک دلائل دینے سے روک کر اس حق کی نفی کی جو جسٹس کارنیلیئس کے مطابق دوہرے قتل کے ملزم کے وکیل کو دیا جاتا ہے۔ کیا آئینی طور پر منیتخب وزیر اعظم پر فرد جرم عائد کیے جانے کا حکم دینے سے پہلے خود کو مطمئین کرنا ضروری نہیں تھا۔ عدالت نے پی سی او ججز کیس میں شوکاز نوٹس کی سماعت چو بیس روز کی تو کیا وزیر اعظم کے لئے معیار مختلف ہونا چاہیئے۔ کیا توہین عدالت کے لئے نیت کا ثابت ہونا ضروری ہے۔ کیا انہیں عدالت کیس میں ملزم کا رویہ اہم نہیں ہو تا۔ کیا کوئی نا قابل عمل حکم یا فوری طور پر نا قابل عمل حکم پر عمل میں تاخیر نہیں ہے۔ کیا نیک نیتی اور فیصلے پر عمل نہ کر سکنے کی صلاحیت موئثر نہیں تھا۔ کیا قانونی شعبے کی سمری وزیراعظم کے لئے اہم نہیں ہوتی ۔ کیا وزیراعظم کا یہ دفاع موثر نہیں تھا کہ انہوں نے سیکرٹری کی بریفنگ پر عمل کیا ۔ کیا وزیراعظم کے لئی رولز آ ف بز نس پر عمل کر نا ضروری نہیں ہے۔ کیا و زیر اعظم کا رولزآ ف بز نس کے مطابق چلناتو ہین عدالت قرار دیا جاسکتا ہے کیا وزیر اعظم کا یہ عمل 24پی ون کے زمرے میں نہیں آتا۔ کیا حکومت نے این آر اور کے فیصلے پر من وعن عمل نہیں کر دیا سوائے خط لکھے جانے کے ۔ کیا وزیر اعظم کا موقف شوکاز نوٹس خارج کیئے جانے کیلئے کافی نہیں ہے۔ کیاوزارت عظمی کا حلف اٹھانے سے قبل وزیر اعظم کا ججوں کو رہا کرنے کاعمل توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آتا۔ کیایہ المیہ نہیں ہو گا کہ ایک ایسے وزیراعظم کو قید کیا جائے جس نے ججوں کور ہا کیا۔ کیا وزیراعظم اس جیسے سلوک کے مستحق نہیں ہیں جو ان لوگوں کے ساتھ کیاگیا جنھوں نے ججوں کو بیوی بچوں سمیت قید کر دیا اور جان بوجھ کر تین نومبر کے حکم کی خلاف ورزی کی اور عدلیہ کے خلاف پی سی او نافذ کیا۔ کیا عدلیہ کو ایک منتخب وزیراعظم کیلئے احتراز سے کام نہیں لینا چاہیئے۔
اپیل میں ملکی اور بین الاقوامی عدالتوں کی متعدد مثالیں دی گئی ہیں جن کے ذریعے عدالت کو بتایا گیا ہے کہ وزیر اعظم کو آئین کے آرٹیکل 248 (2 ) کے تحت استثنی حاصل ہے جس کے باعث ان کے خلاف کسی ایسے مقدے کی کارروائی نہیں کی جاسکتی جس میں سزا سنائے جانے کا احتمال ہو۔ اپیل میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے ان نکات پر غور نہیں کیا جس کی بنا پر وزیر اعظم پر فرد جرم عائد کئے جانے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے اور وزیر اعظم کو جاری کئے گئے اظہار وجوہ کا نو ٹس خارج کیا جائے۔