اعتزاز احسن نے کہا کہ سوئس حکام کو خط لکھنے کی عدالت کی پیشکش مسترد ہو گئی ہے اور وہ میرٹ پر عدالت کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ وزیراعظم نے کسی قسم کی توہین عدالت نہیں کی۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سوئس اکانٹس میں رکھی گئی رقم عوام کی ہے۔ توہینِ عدالت کے معاملے میں فردِ جرم عائد کیے جانے کے فیصلے کیخلاف وزیراعظم کی انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت سپریم کورٹ میں جاری ہے۔
وزیراعظم کے وکیل بیرسٹر اعتزاز احسن کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں قائم آٹھ رکنی بینچ میں دلائل جاری ہیں۔ اعتزاز احسن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ توہین عدالت کا نوٹس خارج کردیا جائے۔ چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا کہ وزیراعظم سوئس حکام کو خط لکھ دیں معاملہ یہیں ختم ہوجائے گا۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ سوئس اکانٹس میں موجود رقم عوام کی ہے کسی کی جیب میں نہیں جائے گی۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل نہیں ہوگا تو یہ نظام کیسے چلے گا۔ اس موقع پر جسٹس ثاقت نثار نے کہا کہ وزیراعظم خود بتادیں کہ وہ خط لکھنے کے فیصلے پر کیسے عمل کریں گے چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ججوں کی رہائی سے متعلق جو باتیں لکھیں ہیں وہ باعث شرمندگی ہیں۔ ججوں کے رہائی کا کریڈٹ لیکر عدلیہ کو مرعوب کرنے کی کو شش کئی گئی ہے۔ ججوں پر احسانات کرنے والے سوالات عدلیہ کی آزادی کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہیں۔ بعد میں اپیل میں ججوں سے متعلق قابل اعتراض تین نکات حذف کردئے گئے۔
اس موقع پر چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ وزیراعظم نے صرف واقعات بیان کئے کوئی احسان نہیں جتایا وہ عدلیہ کا احترام کرتے ہیں۔ مطلع ابرآلود ہوجائے لیکن گرد آلود نہیں ہونا چاہئے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ وہ نیک نیتی سے آئے ہیں اور اداروں میں کوئی تصادم نہیں چاہتے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے شخص کے سامنے جھک نہیں سکتے جو خود کو طاقت ور سمجھتا ہو۔ اگر وزیر اعظم اعلی اخلاق کے مالک ہیں تو ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ صدر مملکت ٹی وی انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ ان کیخلاف خط نہیں لکھا جائے گا۔ چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ عدالتی آپشنز میں وزیراعظم پر سنگین الزامات لگائے گئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے صرف آپشنز کا ذکر کیا کوئی مخالفانہ فیصلہ نہیں دیا۔