سپریم کورٹ میں وزیراعظم کی انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت آج پھر ہو گی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا فیصلہ میرٹ پر کیا جائے گا۔
گذشتہ روز سماعت کے موقع پر وزیراعظم کے وکیل بیرسٹر اعتزاز احسن نے چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم آٹھ رکنی بینچ میں دلائل کے دوران کہا کہ عدالت کے پاس وزیر اعظم کو شوکاز نوٹس جاری کرنے علاوہ بھی آپشن تھے۔ جس پر جسٹس طارق پرویز نے کہا ہر آپشن کامقصد ایک ہے۔ اعتزاز احسن نے جواب دیا مقصد خط لکھنا ہے تو وہ توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آتا۔ اعتزاز احسن نے کہا عدالت ایک طرف ملک قیوم کو وزارت قانون سے مشورہ نہ لینے پر سزا دے رہی ہے اور دوسری جانب وزیر اعظم کو وزارت قانون سے مشورہ کرنے پر سزا دی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا پی سی او ججزکے کیس میں عدالت نے کشادگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ کو بھی اتنا ہی وقت دیا جائے۔ اعتزاز احسن نے جواب دیا نہیں اتنا وقت نہ دیں لیکن وزیر اعظم کا کیس ہے کچھ تو وقت ملنا چاہئے۔ اعتزازاحسن نے کہا کہ وہ ثابت کریں گے کہ وزیر اعظم نے رولز پر عمل کیا۔ سات رکنی بنچ کا فیصلہ انتہائی سخت ہے، بادی النظر کا لفظ لگا دینے سے الفاظ کی شدت کم نہیں ہوتی۔
اس سے قبل چیف جسٹس پاکستان نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ وزیراعظم سوئس حکام کو خط لکھ دیں معاملہ یہیں ختم ہو جائے گا۔ اعتزاز احسن نے موقف اختیار کیا سوئس حکام کو خط لکھنے کی عدالتی پیشکش حکومت نے مسترد کردی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا ججوں کی رہائی کا کریڈٹ لیکر عدلیہ کو مرعوب کرنے کی کو شش کئی گئی ہے۔ ججوں پر احسانات کرنے والے سوالات عدلیہ کی آزادی کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہیں۔ چوہدری اعتزاز احسن نے کہا وزیراعظم نے صرف واقعات بیان کئے کوئی احسان نہیں جتایا وہ عدلیہ کا احترام کرتے ہیں۔ بعد میں اپیل میں ججوں سے متعلق قابل اعتراض تین نکات حذف کردئے گئے۔