قائدِ اعظم14جولائی1947 کو پریس کانفرنس میں صحافیوں خطاب کرتے ہوئے فرمایا ”ہم نے جمہوریت حقیقتا تیرہ سو سال پہلے سیکھ لی تھی ۔اس لئے جب آپ جمہوریات کی بات کرتے ہیں تو مجھے شبہ ہوتا ہے کہ آپ نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا” اور بعد ازاں ایک امریکی کالم نگار کو فروری ١٩٤٨انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان کے آئین کا تعین ان الفاظ میں کیا ” پاکستان کا دستور ابھی بننا ہے لیکن میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ جمہوری نوعیت کا آئین ہوگا اور اسلام کے تمام بنیادی اصولوں پر مشتمل ہو گا ۔ان اصولوں کا اطلاق آج بھی ہماری عملی زندگی اسی طرح ہو سکتا ہے جس طرح تیرہ سو سال پہلے ہوا تھا’ قائدِ اعظم کے ان ارشادات سے واضح طور پر عیاں ہے کہ وہ پاکستان میں اپنی روایات کے مطابق ایک جمہوری نظام اورایک جمہوری آئین کا نفاذ چاہتے تھے۔ملک میں ایک حقیقی جمہوریت کی صبح کو طلوع کرنا چاہتے تھے مگر شب پرستوں نے انہیں اپنے مذموم مقاصد کے سامنے حا ئل دیکھ کر اپنے راستے سے ہٹا دیا اور پھر غیر جمہوری سوچ اور طرزِ فکر کے حامل لوگوں نے اقتدار اور ملک پر قبضہ کرلیا جو اب تک قائم ہے۔ملک میں کبھی جمہوریت آ ہی نہ پائی کیونکہ جمہوریت کا مطلب تو عوام کی حکومت ، عوام کے ذریعے اور عوام کیلئے ہوتی ہے مگر یہاں تو خواص کی حکومت ، خواص کے ذریعے اور خواص کے لئے ہے۔اور ہوں اسلامی جمہوریہ پاکستان اسلامی بن سکا نہ جمہوریہ بلکہ عوام کو یہاں بچے جمورے بنا دیا گیا۔ جمہوریت تو دراصل اندازِفکر کا نام ہے جس کی روشنی میں طرزِ حکومت تشکیل پاتا ہے مگر بدقسمتی سے یہاں غیر جمہوری ”آمری” طرزِ فکر رکھنے والے ” سیاسی سامری” گزشتہ ساٹھ برسوں سے اقتدار کی کرسیوں پر قابض ہیں او ر انہوں نے اپنے آمرانہ اور سو کالڈ جمہوری نظام کو دوام دینے کے لئے اور اپنے وسیع تر مفاد میں وطن عزیز میں جمہوری کلچر کو فروغ نہ دیا۔تاریخِ پاکستان کا اگر بغور مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ گزشتہ ساٹھ برسوں میں ملک کی زمامِ اقتدار صرف تین طبقوں یعنی جاگیر دارواں، سرمایا داروں اور فوجی ڈکٹیٹروں ہاتھوں میں رہی۔اور ان تینوں طبقوں کے اندازِ فکر کا جمہوریت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ۔ جاگیر دار ہرملک کو اپنی جاگیر اور عوام کو اپنے مزارع اور ”کمی کمین” سمجھتا ہے ۔جب وہ بر سرِ اقتدار آتا ہے تو پورے ملک کو اپنی جاگیر کے طور پہ چلانا چاہتا ہے یا چاہتی ہے اور یوں جمہوریت کے پردے میں آمریت جاری رہتی ہے، نظام سلطنت اور ادارے تباہ ہو جاتے ہیں ۔سرمایا دار کی بھی ایک ہی سوچ ہے کہ ہر چیز کو پیسے سے خریدا جا سکتا ہے۔ لہذا جب وہ بر سر ا قتدار آتا ہے تو وہ ایک چپڑاسی سے لیکر ایس ڈی او تک،ایک منشی لیکر آئی جی تک،ایک کونسلر سے لیکر سینیٹر تک ہر شخص کو پیسے سے خریدنا چاہتا ہے۔ اور اس کے لئے ”شانگا مانگا ” بازار میں با قاعدہ جمہوری نمائندوں کی بولی لگتی ہے۔لہذا وہ ملک کو ایک فیکٹری یا فونڈری کی طرح چلانا چاہتا ہے۔فوجی ڈکٹیٹر نے بھی ساری زندگی ایک ہی سبق سیکھا ہوتا ہے کہ کوئی اس کے آگے نہ کا لفظ نہ بولے ۔اور جب یہ طبقہ بر سرِ اقتدار آتا ہے تو یہ ملک کو ایک بٹالین کی طرح چلانا چاہتا ہے یوں ادارے اور ملک تباہ ہوجاتے ہیں۔ میری نظر جب تک اقتدار ان غیر جمہوری فکر کے حامل افراد کے پاس ہے ملک میں جمہوریت اور جمہوری ماحول کا قیام اک خواب کے سوا کچھ نہیں۔ان سیاسی بونوں کی اپنی پارٹیوں میں جمہوریت نہیں توہ یہ ملک میں جمہوریت کیسے لائیں گے؟ان نام نہاد جمہوری لیڈروں نے اٹھارویں ترمیم میں آمرانہ قوانین کیوں منظور کیے ہیں ؟حق تو یہ ہے کہ ان تینوں طبقوں نے جان بوجھ کر ملک میں جمہوری کلچر کو فروغ نہیں دیا ۔ عوام کو شعور نہیں دیا تاکہ ان کی بادشاہتیں قائم رہیں ۔اور ماضی میں عدلیہ، اور الیکشن کمیشن بھی ان کے آلہ کار بنے رہے ۔عوام ظلم کی چکی میں پستے رہے ۔ خود کشیاں کرتے رہے اور حکمران اپنی غربت اور غریب مٹاتے رہے۔اگر کبھی عوام کے ضمیر نے ذرا جاگنے کی کوشش کی تو کبھی اسے روٹی کپڑے اور مکان کے نام پر اور کبھی اسلام کے نام دھوکا دیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں حقیقی جمہوریت کے قیام کے لئے عوام ، عدلیہ، الیکشن کمیشن اور میڈیا اپنا کردار ادا کرے ۔ عوام فرقہ پرستی، تعصب، ذات برادر ی سے بالا تر ہو کر ایک با کردار قیادت کا انتخاب کرے۔ ووٹ کی اہمیت کو سمجھیں کہ امام حسین نے اپنا سارا کنبہ شہید کروا دیا مگر ایک بدکردار شخص کو ووٹ نہیں دیا تھا۔اور ہم ہیں کہ جو بھی گلی میں سولنگ لگوا دے جو تھانے سے چھڑوا دے اس کو ووٹ دے دیتے ہیں !اس روش کو ترک کرنا ہو گا۔ با کردار قیادت کا انتخاب کرکے اپنے مسائل کا حل خود تلاش کرنا ہو گا۔اپنے زخموں کے مرہم کا انتظام کرنا ہو گا، علامہ اقبال نے اسی لئے کہا تھا الیکشن کمیشن کو بھی چاہیے کہ صاف اور شفاف ”الیکشن” پر توجہ دے” کمیشن” کو بھول جائے۔اب بہت تماشا ہو چکا ۔ آئین کے آرٹیکل ٦٢ اور ٦٣ کو اس کی اصل روح کے سا تھ نافذ کروائے کہ اگر تمام ادارے پارلیمنٹ کو جوابدہ ہیں تو پھر پارلیمنٹ میں صالح ، ایماندار، تعلیم یافتہ اور صاحبِ کردار لوگوں کو ہی آنا چاہیئے۔بد کرداروں، غنڈوں، رسہ گیروں اور کرپٹ لوگوں کے لئے اس میں کوئی جگہ نہیں ہے۔الیکشن ست پیسے کے عنصر کو ختم کیا جائے۔الیکشن کے نام پر کاروبار کو بندکیا جائے۔ کیا الیکشن کمیشن کو اتنی بھی عقل نہیں کہ جو شخص کروڑوں لگا کر اسمبلی کی سیٹ جیتتا ہے وہ ایمانداری کرنے کے کئے جیتتا ہے؟ ملک میں الیکشن کا ایک مقدس ماحول پیدا کیا جائے تاکہ عوام حقیقی معنوں میں اس میں شریک ہو سکیں۔ عدلیہ کو بھی چاہئے کہ ملک میں جمہوری کلچر کے فروغ کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ آمرانہ قوانین کو کالعدم قرار دے۔ عدلیہ کے فیصلوں پر عمل درآمد کروائے چاہے اس کے لئے اسے کسی بھی حد تک جانا پڑے۔کیا عدلیہ کے فیصلے ماننے کے لئے صرف غریب عوام ہی باقی بچی ہے؟میڈیا پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنی ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرے ۔ ماضی میں اس نے ایسے لوگوں کو لیڈر بنا دیا جو کلرک بننے کے بھی اہل نہ تھے۔ آئیں سب ملکر ملک میں جمہوری کلچر کے فروغ کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کریں کہ ہمارے پاس وقت بہت کم رہ گیا ہے۔