کہتے ہیں عمومی تاثر اصل حقائق سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے، جب ایک تاثر عوام کے دل و دماغ میں راسخ ہو جائے اور دل میں شکوک و شبہات کی آکاس بیل پھیلا دے تو محض زبانی لفاظی اور لایعنی دعوں سے یہ تاثر زائل نہیں کیا جا سکتا، ایسی صورت میں گوشواروں اورحقائق ناموں کا کھیل ایک مضحکہ خیز تماشا بن کر رہ جاتا ہے، بلوچستان گزشتہ کئی عشروں سے ایسے ہی تاثر کا شکار ہے، عمومی تاثر اور ارباب اقتدار کے حقائق ناموں میں بہت فرق ہے، ہمارے ارباب اقتدار کا خیال ہے کہ بلوچستان کی فضابغاوت اور غداری کے جراثیموں کیلئے بہت ساز گار ہے مگر بلوچستان کے رہنے والے اِس سے متفق نہیں، ان کا کہنا ہے کہ جب ہم اپنی محرومیوں کا تذکرہ کرتے ہیں،اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کا رونا روتے ہیں اور آئین میں دیئے گئے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں تو ہم پر بغاوت اور غداری کا الزام لگادیا جاتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کا احساس محرومی محض تخیلاتی نہیں، یہ احساس محرومی اپنے اندر ٹھوس وجوہات رکھتا ہے،اہلیان بلوچستان کے پاس اپنی محرومیوں کی ایک طویل فہرست ہے،جب وہ وکالت پر آتے ہیں تو کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا، پاکستانی عوام کی اکثریت بلوچستان کے اِس دکھ کو سمجھتی ہے، مگر طاقت آزمائی کو کمال فن سمجھنے والے ہمارے ارباب اقتدار نہیں سمجھتے، وہ ہر منظر کو جرم بغاوت اور شورش کی عینک سے دیکھتے ہیں۔
آج بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی تاریخ برسوں پرانی ہے، بلوچستان کئی عشروں سے سلگ رہا ہے، مری، مینگل اور بگٹی قبائل کے خلاف کئی آپریشن ہوچکے ہیں، ڈاکٹر شازیہ کے واقعے اور نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد بلوچستان کے حالات بگڑتے چلے گئے اور احساس محرومی کی برسوں سے سلگتی آگ، شعلوں سے قومی و لسانی عصبیت اور مملکت سے بغاوت کے خوفناک الا میں تبدیل ہوگئی، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اب امریکہ نے بھی بلوچستان کی آگ بھڑکانے کیلئے باقاعدہ کاروائی شروع کر دی ہے، مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کو بھارت اور اسرائیل کا اندورنی معاملہ قرار دینے والے امریکہ کو بھی اب بلوچستان کی فکر لاحق ہوگئی اور بلوچستان کے بارے میں امریکی پالیسی کا از سر نو جائزہ لیا جا رہا ہے، نئی حکمت عملی کے تحت امریکی وزارت خارجہ اور سی آئی اے کے پاکستان ونگ میں بلوچستان واچ ڈیسک قائم کر دیا گیا ہے، دوسری طرف امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی عوامی سماعت کے ذریعے کہہ رہی ہے کہ بلوچستان ایک ایسا شورش زدہ علاقہ ہے، جس میں پاک فوج ،نیم فوجی اور خفیہ ادارے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سرخیل ہیں،آٹھ فروری کواوور سائٹ اینڈ انویسٹیگیشن کیلئے ذیلی کمیٹی کے تحت ہونے والی سماعت کے دوران پانچ ماہرین نے اپنے بیانات کمیٹی کو جمع کرائے، جن میں واشنگٹن ڈی سی کی جارج ٹان یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر کرسٹین فیئر، امریکی فوجی تجزیہ نگار اور مصنف رالف پیٹرز جو جون 2006میں آرمڈ فورسز جرنل میں ایسا نقشہ شائع کرچکے ہیں جس میں ایران اور پاکستانی بلوچستان کو افغانستان کے مخصوص علاقے پر مشتمل گریٹریا آزاد بلوچستان دکھایا گیا تھا اور انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے پاکستان کیلئے ڈائریکٹر علی دایان حسن بھی شامل تھے، علی دایان حسن کی تجویز تھی کہ اغواماورائے عدالت قتل اورغیرقانونی گرفتاریاں روکنے کیلئے حکومت پاکستان پردباو ڈالاجائے، جبکہ اِس موقع پر امریکی ماہرین اور حکام نے فوج، آئی ایس آئی، آئی بی اور ایف سی پر پابندیاں لگانے اور تعلقات ختم کرنے کی تجاویزدی اور مطالبہ کیا کہ بلوچستان میں حالات معمول پر لانے کیلئے امریکہ پاکستان پر دبا ڈالے اور پاکستان سے پوچھے کہ بلوچوں کو آزادی کا حق کیوں نہیں دیا جا سکتا۔
جب امریکی ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی میں بلوچستان کے مسئلے پر عوامی بحث و مباحثہ کا تذکرہ امریکی محکمہ خارجہ کی خاتون ترجمان وکٹوریہ نولینڈ کی پریس بریفنگ میں زیربحث آیا، تو انہوں نے خارجہ امور کی کمیٹی کی سماعت کو امریکی حکومت کا موقف تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس بہت سے خارجی امور پر سماعت کا اہتمام کرتی رہتی ہے، ایسی سماعتوں سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ امریکی حکومت کسی ایک موقف کی حامی ہے یااس کی توثیق کرتی ہے، اِس سوال کے جواب میں کہ کیا اِس سے یہ سمجھا جائے کہ امریکہ بلوچستان کی آزادی کے مطالبے کا حمایتی نہیں ہے، امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان کا کہنا تھاکہ اِس معاملے پر ہمارا موقف تبدیل نہیں ہوا ہے، امریکہ بلوچستان کی آزادی و خودمختاری کا حامی نہیں،امریکی حکومت بلوچستان کی تمام جماعتوں پر زور دیتی ہے کہ اپنے اختلافات کا پرامن اور قابل قبول سیاسی حل نکالیں، جبکہ امریکی دفتر خارجہ کے معتبر ذرائع کہتے ہیں کہ امریکی حکومت بلوچستان کی موجودہ صورت حال کو گہری تشویش کی نگاہ سے دیکھتی ہے، بلوچستان کے مسئلے پر امریکی طرزعمل کے بعض پہلوں پر پاکستان نے قومی اور ملکی مفادات سے آہنگ موقف اختیارکرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے، امریکہ سمیت کسی کو اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دی جاسکتی، امریکی کانگریس کمیٹی میں بلوچستان کے معاملات پر امریکی ارکان کی بحث پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط کا کہنا تھاکہ کسی ملک کو پاکستان کے اندرونی معاملات اور قومی خودمختاری میں مداخلت کی اجازت نہیں دیں گے، پاکستان نے اپنی تشویش سے واشنگٹن کو آگاہ کردیا ہے، دوسری طرف ارکان سینٹ کا کہنا تھا کہ امریکی کمیٹی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بلوچستان کے مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگرکرنے کی کوشش کرے،ا مریکی مداخلت کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی،پاکستان اپنے معاملات خود نمٹانے کی صلاحیت رکھتا ہے، حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی طرف سے حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ اِس مسئلے کو امریکہ کے سامنے اٹھائے، حکومت پاکستان اور سینٹ کی طرف سے اِس حوالے سے ایک سخت پیغام دیا جائے کہ ہم کسی بیرونی مداخلت کو ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔
قابل تشویش بات یہ ہے کہ امریکی کانگریس کمیٹی نے اپنی سماعت کے دوران بلوچستان کی آزادی و خودمختاری کے مسئلے کو ایک عالمی مسئلہ بنا نے کا اہتمام کیا ہے جبکہ امریکی ذرائع ابلاغ، تحقیقی ادارے، جامعات اور حکومتی اداروں نے بلوچستان کے مسئلے کو عالمی مسئلہ بنانے کی کوششیں شروع کر دی ہے، جس سے بلوچستان کے حوالے سے امریکی پالیسی کھل کر سامنے آگئی ہے، ایک طرف امریکی حکام یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کو مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں، جبکہ دوسری طرف پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے حوالے سے امریکی کردار کسی سے پوشیدہ نہیں، آج امریکہ کوپاکستان کے حالات پر بہت تشویش ہے، وہ آزاد بلوچستان کی بات کررہا ہے،امریکی دفاعی ماہرکہتے ہیں کہ بلوچوں کو آزادی کا حق کیوں نہیں دیاجاتا،لیکن ہم ان سے سوال کرتے ہیں کشمیر اور فلسطین کے عوام برسوں سے حق خود ارادی اور آزادی کے متلاشی ہیں، کیا انھوں نے کبھی بھارت اور اسرائیل سے پوچھا کہ اس نے فلسطین اور کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کو آزادی کا حق کیوں نہیں دیتا، ہم سمجھتے ہیں کہ امریکی کانگریس کمیٹی میں باضابطہ طور پر بلوچستان کی آزادی پر غوروخوض انتہائی اشتعال انگیز اقدام ہے، جس پر وزارت خارجہ اور ارباب اقتدار کی جانب سے شدید رد عمل آنا چاہیئے تھا، مگر صد افسوس کہ ایک قرار داد مذمت کی منظوری قومی سلامتی سے جڑے اِس اہم مسئلے کا حل سمجھی گئی، دوسری طرف امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے یہ وضاحت کہ امریکی کانگریس کمیٹی کو امریکی انتظامیہ کی تائید اور حمایت حاصل نہیں اور امریکہ بلوچستان کو پاکستان کا حصہ دیکھنا چاہتا ہے، عالمی رائے عامہ کو بے وقوف بنانے کے مترادف اور منافقت پر مبنی پالیسی کا حصہ ہے، اصل معاملہ یہ ہے کہ امریکہ کو بلوچوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے، وہ بلوچستان کارڈکو افغانستان کے بارے میں پاکستان پردباؤڈالنے کیلئے استعمال کر رہا ہے، خود بری فوج کے سربراہ اِس حقیقت کا اظہار کرچکے ہیں کہ وسطی ایشیائی ریاستوں اور افغانستان تک رسائی بلوچستان کی بندرگاہوں کے ذریعے ہی ممکن ہے، جنرل کیانی نے امریکی کانگریس میں بلوچستان کے مسئلے پر بحث کو درست تناظر میں جوڑا ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ بلوچستان میں امریکی دلچسپی بے سبب نہیں،محل وقوع کے اعتبار سے بلوچستان دنیا کا اہم ترین علاقہ ہے جوایران، مڈل ایسٹ، جنوب مغربی ایشیا اور سینٹرل ایشیا سے جڑا ہوا اور گوادر کی بندرگاہ سمیت تیل گیس اور معدنیاتی ذخائر کے ساتھ ساتھ بلوچستان کا اسٹریٹیجک محل وقوع عالمی قوتوں کیلئے اپنے اندر خصوصی کشش رکھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بلوچستان ایک طویل عرصے سے سی آئی اے، خاد، اوررا کی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے، امریکہ کی سونے چاندی و دیگر معدنی وسائل سے مالا مال اور جغرافیائی نکتہ نظر سے بے انتہا اہمیت کے حامل پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کواپنا خصوصی ہدف بنانے اور جدید ترین سہولتوں سے آراستہ گوادر پورٹ کے ذریعے دوبئی سے زیادہ سستی اور کم فاصلہ بندرگاہ کے حصول کی خواہش عریاں ہوکر سامنے آچکی ہے،اسی وجہ سے اس نے براہ راست بلوچستان میں انارکی اور قومی شاونزم کی لڑائی سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کر لیا ہے، جس کی وجہ سے آج پاکستان کا یہ اہم اور حساس صوبہ عالمی طاقتوں کی آماجگاہ بن چکا ہے اور بلوچستان کے حالات بہت تیزی سے بگاڑے جارہے ہیں، حکومت کی جانب سے بلوچ عوام کی جائز شکایات کے ازالے میں کوتاہی کے نتیجے میں صورت حال ہر لمحہ ابتر ہوتی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے بیرونی سازشی طاقتوں کو اپنا مذموم کھل کھیلنے کے موقع مل رہا ہے، اِس صورتحال سے ہر محب وطن پاکستانی سخت اضطراب میں مبتلا ہے، مگرہمارے ارباب اختیار خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، حکومتی پالیسیوں نے بلوچستان کو ایک ایسی دلدل بنا دیا گیا ہے جس میں ریاست دھنستی جارہی ہے،اِس وقت جبکہ علیحدگی کی تحریک زوروں پر ہے اورامریکہ کی نظریں بلوچستان کے ذخائر اور گوادر جیسی اہم پورٹ پر جمی ہوئی ہیں،دوسری طرف بھارت جیسا ہمارا ازلی دشمن بلوچستان میں تخریب کاری کے جال بچھانے میں نہ صرف کامیاب ہو چکا ہے بلکہ بلوچستان کے پسے ہوئے اور مفلوک الحال عوام میں انتشار کا باعث بھی بن رہا ہے،ایسے میں ہر طبقہ فکر بالخصوص سیاسی رہنماں اور حکومت وقت کی ذمہ داریاں بہت اہمیت اختیار کر جاتی ہیں۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے چارہ گری اور ناراض بلوچوں کے زخموں پر مرہم کی کوئی سنجیدہ کوشش سامنے نہیں آرہی، ہمارے حکمرانوں نے کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ بلوچستان کے لوگوں کا ایک بڑا حصہ راکٹوں، لشکروں اور مارٹر گولوں کے خلاف ہونے کے باوجود، وہاں ریلوے لائینیں کیوں اکھاڑ دی جاتی ہیں، تیل کی پائپ لائینیں کیوں اڑادی جاتی ہیں،کیوں ریاستی اداروں کے ساتھ پنجہ آزمائی کی جاتی ہے، کیوں قومی انفرااسٹریکچر کو نقصان پہنچایا جاتا ہے، حکومت کے ہوتے ہوئے کیوں متوازی حکومت قائم کی جاتی ہے، وہ کیا وجوہات تھیں جس نے مری،مینگل اور بگٹی قبائل کو سرکشی کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کیا، کیوں لوگ گھروں،بستیوں اور محلوں کو چھوڑ پر غاروں اور پہاڑوں کی طرف نکل گئے ہیں، آج بلوچ نئی نسل اسقدر برہم کیوں ہے، کیوں یونیورسٹیوں اور کالجز کے طلباآتش ِجوالہ بنے ہوئے اپنے دوسرے پاکستانی بھائیوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں، یہ سب کچھ کیوں ہوا، یقینا بلوچستان میں وقفے وقفے سے بھڑ کنے والے آتش فشاں اپنے اندرکچھ محرکات رکھتے ہیں، جس کی طرف کبھی بھی ہمارے ارباب اقتدار نے توجہ نہیں دی،پنجہ آزمائی اور طاقت کو ہرمسئلے کا حل سمجھنے والوں نے اصل مرض کے علاج سے پہلو تہی کرتے ہوئے بلوچستان کے دکھ کی دوا اور علاج سڑکوں، پلوں، ترقیاتی منصوبوں اور این ایف سی ایوارڈِ وآغازِ بلوچستان پیکیج تجویز کئے، جبکہ مسئلہ سڑکوں، پلوں اور ترقیاتی کاموں سے کہیں زیادہ باہمی اعتماد اور عزت نفس کی بحالی کے ساتھ بلوچ عوام قائم اس تاثر کو زائل کرنے کا جس نے حالات اس نہج پر پہنچادیئے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کے حالات طاقت سے نہیں، محبت، ہمدردی، رواداری اور انصاف کے قیام سے ہی درست کیے جاسکتے ہیں، لہذا ملک کی تمام سیاسی قیادت کو بلوچستان کے لوگوں کے ساتھ بے انصافی کے خاتمے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور ارباب اختیار کو سیاسی فہم تدبر سے کام لیکر بلوچستان کے حالات کو اِس نہج پر جانے سے روکنے کی تدبیر کرنی چاہئے جو سقوط ڈھاکہ جیسے کسی دوسرے سانحہ پر منتج ہوسکتے ہیں، اِس نازک موقع پر ہم امریکی حمایت پر اطمینان کا اظہار کرنے والے اپنے ان ناراض بلوچ بھائیوں سیبھی استدعا کرتے ہیں کہ وہ بزرگ بلوچ سیاستدان سردار عطااللہ مینگل کی اِس بات پر ضرور غور کریں کہ اگر بلوچ پاکستان سے آزادی حاصل کرلیں گے تو وہ عالمی سامراج کے شکنجے میں پھنس جائیں گے۔