دو مارچ ٢٠١٢ جیسے جیسے قریب آتا جا رہا ہے پاکستانی سیاست کا ٹمپریچر بڑھتا جا رہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کیلئے یہ انتخاب اس لحا ظ سے انتہائی اہم ہے کہ انہی انتخابات نے آئیندہ کے صدرِ مملکت کے انتخاب میں کلیدی رول ادا کرنا ہے ۔پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی بڑی جماعتیں ہونے کا ناطے صدارت پر نظریں جمائے ہوئے ہیں لیکن مسلم لیگ (ن) کی پوزیشن اس معاملے میں کافی کمزور ہے اسے یہ فکر دامن گیر ہے کہ اگر انتخابات مجوزہ شیڈول کے مطابق دو مارچ ٢٠١٢ میں ہوتے ہیں تو اس کے ہاتھ کچھ نہیں لگے گا لہذا ہنگامہ آرائی اور جلسے جلوسوںں کی سیاست کا آغاز کیا گیا کہ شائد اس کوشش سے مڈ ٹرم انتخابات کا انعقاد ممکن ہو سکے اور پاکستان پیپلز پارٹی کو اسکی موجودہ پوزیشن سے نیچے کھینچا جا سکے ۔ ملک کے مختلف حصوں میں جلسے جلوس اسی سلسلے کی کڑی تھے ۔میمو گیٹ سکینڈل اور توہینِ عدالت کا کیس بھی اس سلسلے کی بڑی توانا کوششیں تھیں جو ناکامی پر منتج ہوئی ہیں اور اب ان انتخابات کو روکنا کسی کے بس میں نہیں ہے۔ ٢٠٠٨ کے صدارتی انتخابات میں آ صف علی زرداری نے دو تہائی اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی حالانکہ ان انتخابات میں مسلم لیگ (ق) نے اپنا امیدوار الگ کھڑا کر رکھا تھا۔ اگلے صدارتی انتخابات میںپاکستان پیپلز پارٹی کو اپنے اتحادیوں مسلم لیگ ق) عوامی نیشنل پارٹی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ (فنگشنل) اور دوسرے چھوٹے گروپوں کی حمائت حاصل ہو گی اور مارچ ٢٠١٣ کے سینٹ کے انتخابات کے بعد جب سینیٹ مکمل طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کے کنٹرول میں ہو گا تو پھر مسلم لیگ(ن) کے چودہ طبق روشن ہو جائینگے ۔ میاں براد ران کو اپنی سیاسی قوت کا بخوبی اندازہ ہے لہذا انھیں اندر ہی اندر یہ غم کھائے جا رہا ہے کہ سینیٹ میں پی پی پی کو اکثریت حاصل ہو جانے کے بعد ان کی سیاسی اہمیت بالکل ختم ہو جائیگی اور پھر اسٹیبلشمنٹ نے رہی سہی کسر عمران خان کی صورت میں پوری کر رکھی ہے اور میا ں برادران کے سارے کس بل نکال دئے ہیں۔اب انھیں دور دور تک روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی۔ انتہائی مایوسی کے عالم میں وہ الزامات اور کردار کشی پر اتر آئے ہیں جو انھیں مزید سیاسی تنہائی کا شکار کر رہی ہے۔مسلم لیگ(ن) کے پاس اس صورتِ حال سے نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ بچا ہے کہ وہ مڈ ٹرم امتخابات کا مطالبے میں شدت پیداکر کے ملک میں افرا تفری پیدا کردے اور پاکستان پیپلز پارٹی کی ممکنہ اکثریت سے اسے محروم کردے لیکن ستم یہ ہے کہ ملک کی اہم سیاسی جماعتیں مڈ ٹرم انتخابات کی مخالف ہیں وہ موجودہ جمہوری نظام کو تہہ و بالا نہیں کرنا چاہتیں۔ انکی خواہش ہے کہ موجودہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں تاکہ آئندہ آنے والی ا سمبلیوں کو بھی اپنی مدت پوری کرنے کا جواز مل جائے اور یوں جمہوریت قدم بقدم مضبوط ہوتی چلی جائے۔ میثاقِ جمہوریت میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ ا کثریتی جماعت کو اپنی مدت پوری کرنے دی جائیگی اوار اسکی راہ میں روڑے نہیں اٹکائے جا ئینگے لیکن میثاقِ جمہوریت پر د ستخط کرنے کے باوجود مسلم لیگ(ن) جمہوری روایات کو پامال کر رہی ہے اور شہید بی بی سے کیا ہوا اپنا وعدہ توڑ رہی ہے تبھی تو وسطی مد ت انتخابات کا مطالبہ دہرا رہی ہے ۔ مسلم لیگ (ن) اس ڈگر کا انتخاب کرنا چاہتی ہے جس میں افرا تفری اور انتشار کا پہلو نمایاں ہو۔مسلم لیگ(ن) کے سامنے ملکی مفاد کی بجائے ذاتی مفاد زیادہ نمایاں ہے اوروہ زرداری دشمنی میں جمہوریت دشمنی پر اتر آئی ہے۔جمہوریت کا تقاضا ہے کہ عوام نے جن جماعتوں کو پا نچ سالوں کیلئے منتخب کیا ہے انھیں اپنی آئینی مدت پوری کرنے دی جائے تاکہ عوام آئندہ انتخابات میں اپنے ووٹ کی قوت سے آنے والے حکمرانوں کا انتخاب کر سکیں۔
اگر آج مسلم لیگ(ن) نے موجودہ جمہوری حکومت کو قبل از وقت گھر بھیجنے کی روائت کو آغاز کر دیا تو پھر آئندہ آنے والی کوئی جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر سکے گی اور یوں اسٹیبلشمنٹ اور غیر جمہوری قوتوں کو گل کھلانے کے مواقع میسر آجائینگے ۔ ہر جماعت چند سالوں کے بعد جلسے جلوسوں اور احتجاج کی سیاست شروع کر دے گی اور حکومت کی رخصتی کا مطالبہ شروع کر دے گی کیونکہ حکمران جماعت نے خود بھی ماضی میں ایسا ہی کیا تھا اور اپنی مخالف حکمران جماعت کو اس کی آئینی مدت پوری کرنے سے روکا تھا۔ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کا حکمرانوں پر الزامات لگانا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اور یہ پچھلے کئی عشروں سے بڑی خوبصورتی سے جاری و ساری ہے۔ آجکل آزاد میڈیا پر تخلیق کردہ کہا نیاں اور بھونڈے الزامات گھر گھر سنا ئی دیتے ہیں جو بالکل جھوٹ اور بغض پر مبنی ہو تے ہیں ا یسی ہی ذاتی تخلیق کردہ کہانیوں اور الزامات پر حکومتوں کی بر خاستگی کا مطالبہ کرناجمہوری نظام سے مذاق کے مترادف ہو تا ہے لیکن پاکستان میں یہ روش عام ہے ۔میاں محمد نواز شریف نے دس سال تک فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں بڑی ذلت اور رسوائی دیکھی ہے لہذا انھیں جمہوری تجربے کی ا ہمیت کا احساس کر کے اسے ہر صورت میں کامیا بی سے ہمکنار کرنا ہو گا تاکہ کوئی فوجی آمر دوبارہ اقتدار پر قابض نہ ہو سکے لیکن ان کے کچھ مہم جو ساتھی انھیں غلط مشورے دے کر انھیں موجودہ سیاسی بساط کے لپیٹے جانے کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ میاں برادران کو علم ہو ناچا ئیے کہ ایک نیا گھوڑا جمہوری بساط کو لپیٹنے اور اقتدار پر قبضے کیلئے تیار کیا جا چکا ہے اور اقتدار کے اس کھیل میں جمہوری منزل بہت دور نکل جائیگی۔ہر بار سعودی عرب بھی بیچ میں نہیں پڑیگا اورنہ ہی کوئی اسلامی ملک بیچ بچا ئو کروانے آئیگا۔امریکی سنگدلی کے مظاہرے آج کل ہر طرف دیکھے جا سکتے ہیں لہذا ہاتھ ہولا رکھئے۔پی پی پی والے تو سر فروش اور مجنون ہیں انھیں تو قربانیاں دینے کی عادت سی ہو گئی ہوئی ہے لہذا ان کی پیروی مت کیجئے گا۔وہ تو فوجی حکومت سے بھی لڑ سکتے ہیں اور ہمیشہ لڑتے رہے ہیں لیکن آپ کی طبعِ سلیم میں فوجیوں کے ساتھ متھا لگانا ممکن نہیں ہے۔ یاد رکھئے آپ کے چند حواری آپ کو غلط مشورے دے کر آپ کا دھڑن تختہ کروانا چاہتے ہیں لہذا ان کی چالوں کو سمجھ جا ئیے اور موجودہ جمہوری نظام کو جس کی بدولت آپ پاکستان کے ساٹھ فیصد علاقے پر حکمران ہیں اسے چلنے دیجئے کیونکہ جمہوری نظام ہی پاکستان کی سلامتی، استحکام اور بقا کا ضامن ہے۔
مسلم لیگ(ن) کے نثار علی خان اپوزیشن لیڈر ہو نے کے ساتھ ساتھ پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیر مین بھی ہیں۔ حکومت نے اپنی شہ رگ ان کے ہاتھوں میں دی ہو ئی ہے لہذا ان کا فرض بنتاہے کہ وہ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری ، وزیرِ اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی اور دوسرے حکومتی وزرا اور اہلکاروں کے خلاف دستا ویزی ثبوت عدالتو ں میں پیش کریں تا کہ جس کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کے وہ دن رات نعرے بلند کر رہے ہیں عوام بھی ان سے با خبر ہو سکیں۔حکو متیں افواہوں اور الزامات سے نہیں بلکہ دستاویزی ثبوتوں سے گرائی جاتی ہیں۔ چوہدری مونس الہی کے خلاف اتنا شور و غل مچا یا گیا کہ پاکستان کا ہر دوسر ا شخص مونس الہی کو مجرم سمجھنے لگ گیا لیکن اسی شخص کو عدالتوں نے چند ماہ کے ٹرائل کے بعد باعزت بری کر دیا اور اگر سچ وہی تھا جس کا اظہار عدالتی فیصلے کی صورت میں سامنے آیا ہے تو پھر اتنا شور اور واویلا مچانے کی کیا ضرورت تھی؟ مسلم لیگ(ن) کے اکابرین کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خود ہی استغاثہ ہیں گواہ ہیں جج ہیں اور خود ہی منصف ہیں لہذا جو الزامات بھی ان کی جانب سے لگائیں جائیں انھیں سچ تسلیم کر کے مخالفین کا ناطقہ بند کیا جاناضروری ہے نہیں تو وہ واویلا مچائیں گئے کہ فیصلوں میںجانبداری برتی گئی ہے۔مسلم لیگ(ن) کو یاد ہو نا چائیے کہ علی بابا چالیس چور کا نعرہ ان کیلئے ہی استعمال ہو تا تھا اور مرحوم خان عبد الولی خان اس نعرے کو بڑ ے دھڑ لے سے میاں برادران کے خلاف استعمال کیا کرتے تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف جو تحریکِ عدمِ اعتماد پیش کی گئی تھی اس پر اٹھنے والے روپے کہاں سے آئے تھے ۔ کون تھے وہ لوگ جو عدمِ اعتماد لائے تھے اور کون تھے وہ لوگ جو اس عدمِ اعتماد کی تحریک کے وقت میاں برادران کی پشت پر کھڑے تھے اور تحریک کی کامیابی کیلئے نوٹوں کی بارش کر رہے تھے۔ پاکستانی سیاست میں پیسے کا استعمال میاں برادران اور ان کے آقا و مو لا جنرل ضیاا لحق نے متعارف کروایا تھا اب اسکی زد خود میاں برادران پر پڑ رہی ہے تو تلملا رہے ہیں۔ یہ انہی کا ہتھیار ہے جو دستِ عدو سے ان کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔ کل ان کا راج تھا تو انھیں اس ہتھیار کے استعمال میں لطف آتا تھااب ان کے مخالفین بر سرِ اقتدار ہیں تو ا نھیں بڑی تکلیف ہو رہی ہے کہ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری دولت کے بل بوتے پر اپنے اتحادیوں کو اپنے ساتھ ملائے ہوئے ہیں حالا نکہ اس الزام میں کو ئی صداقت نہیں ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ مفاہمتی سیاست کے جس علم کوآصف علی زرداری نے اٹھا یا ہوا ہے حکومت کے ا تحا دی اس سیاست میں ان کا ساتھ دے رہے ہیںجو میاں صاحب کی سیاسی موت ثابت ہو رہا ہے لہذا میاں برادران کا چیں بچیں ہو نا سمجھ میں آتا ہے۔مسلم لیگ(ن) اس حقیقت کو فراموش کئے ہو ئے ہے کہ اسکا سامنا آصف علی زرادری کے ساتھ ہے جس نے زندانوں کی سختیوں کو بھی برداشت کیا ہواہے اورلوہے کی ان آہنی زنجیروں (ہتھکڑیوں) کے بوجھ کو بھی جوانمردی سے اٹھایا ہوا ہے جسکا بو جھ اٹھا نا میاں برادران کے بس میں نہیں تھا۔ بہادر وہ نہیں جو میدانِ جنگ سے پیٹھ دکھا کر بھاگ جائے بلکہ بہادر وہ ہو تاہے جو سچائی کی خاطر لڑتے لڑتے اپنی جان کا نذرانہ دے او رپھر میدانِ جنگ سے اسکا لاشہ اٹھا یا جائے ۔جوانمردی کے اظہار کے لمحے تو نصیب والوں کا مقدر بنتے ہیں لیکن ان لمحوں میں اگر کو ئی چند روزہ زندگی کی خیرات کو اپنی ذہانت، مہارت اور دانش سے تعبیر کرنا چاہتا ہے تو یہ اسکی اپنی سوچ کا مسئلہ ہے۔عوام تو اتنا جانتے ہیں کہ جو میدانِ جنگ سے بھاگ جائیں انھیں جی دار نہیں بزدل کہا کرتے ہیں اور انسانی تاریخ بزدلوں کی نہیں بلکہ بہادروں کی دا ستانوں سے سجی ہوئی ہے اور یہی ہیں وہ داستانیں جو ہر قوم کا فخر و ناز ہوتی ہیں۔
کرو کج جبیں سے پرے کفن میرے قاتلوں کو گماں نہ ہو۔۔ کہ غرورِ عشق کا بانکپن پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا (فیض احمد فیض)
تحریر : طارق حسین بٹ (چیرمین پاکستان پیپلز ادبی فورم یو اے ای)