ہمارے ملک میں جب بھی الیکشن کی فضاہیں شروع ہوتی ہیں سیاستدان عوام کو سبز باغ دیکھانا شروع کر دیتے ہیں ان کے ساتھ یوں ملتے ہیں جیسے انہیں جنم جنم سے جانتے ہوں مگر جوں ہی الیکشن ختم ہوتے ہیں سیاست دان کی آنکھیں طوطے کی طرح پھر جاتی ہیں اور روایتی چار پیارے ان کے گرد اپنا حصار بنا لیتے اس حصار میں وہ غریب جنہیں الیکشن میں نہ جانے کتنا نقصان ہوا ہوتا ہے نظر نہیں آتے اور وہ معمولی سے کام کے لئے بھی ایم پی ائے کے در پر ٹھوکریں کھا رہے ہوتے ہیں یا ان چار پیاروں جنہوں نے الیکشن میں اس ایم پی ائے کی مخالفت کی ہوتی ہے اب ان کے پیاروں کی لسٹ میں داخل ہو چکے ہوتے ہیں ان کی خدمت کر کے آنے والے الیکشن میں نئی حکمت عملی تیار کر رہے ہوتے ہیں مگر اگلے الیکشن میں ووٹر بچارہ برادری کے بڑون کے ہاتوں قربانی کا بکرا بن کر پھر اسی شخص کو اپنا لیڈر بنا کر نعرہ لگاتا ہے قدم بڑھائو ہم تمارے ساتھ ہیں پھر وہی قصہ شروع ہو جاتا ہے اس کہانی کا آغاز میں نے اس لئے شروع کیا ہے مجھے ان دنوں ایک مقامی ایم پی ائے کے ساتھ بیٹھنے کا اتفاق ہوا ہے یہ ایم پی ائے میرا اچھا دوست بھی ہے مگر کیا کیا جائے جب قلم اٹھانے کی باری آتی ہے تو دوستیاں ایک طرف اور قلم کی حرمت دوسری طرف کھڑی ہوتی ہے میں نے عوام کو گلے شکوے کرتے تو سنا تھا مگر ان کی باتوں پر یقین کبھی نہیں کیا اب جب مشاہدہ کیا تو پتہ چلا کہ وہ لوگ سچے ہوتے ہیں میرا دوست بھی اپنے قصیدے پڑنے والوں کو جو اہمیت دے رہا تھا اس کے سامنے اس کے حقیقی دوستوں کو اہمیت ہی نہیں تھی ان کے پیاروں نے قصیدے پڑھ کر اپنے تھڑے بھی پکے کرا لئے مگر ان کے ووٹر اور حقیقی خیر خواہوں کی گلیا ں ایسی ہیں کہ اگر ان کے ہاں کوئی مریض ہو جائے تو اور اوپر سے ابر کرم بھی ہو جائے تو وہ اپنے گھروں میں محصور ہو جاتے ہیں کوئی گاڑی ان کے گھر تک نہیں جا سکتی اور وہ بیچارہ بڑی امیدوں کے ساتھ جب ایم پی ائے ہاوس پہنچتا ہے تو اس جس کوفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ یہی بہتر سمجھتے ہوئے واپس چلا جاتا کہ اس سے بہتر تو یہی ہے کہ ہم کیچڑ والے راستے ہی استعمال کرتے رہیں دوسری طرف وہی ایم پی ائے جب دعوی کرتا ہے کہ میں نے دو ارب روپے کے ترقیاتی کام کرائے ہیں تو میرے جیسے کم ظرف صحافی جزبات پر قابو نہ رکھتے ہوئے سٹیج پر نعرے لگاتے نظر آتے ہیں گویا وہ بھی قصیدہ خواہوں کی لائن میں لگ کر کسی مراسی سے کم نظر نہیں آرہے ہوتے مگر کیا کیا جائے آخر انسان جو ہوئے اہوں نے بھی تو کچھ کام نکلوانے ہوتے ہیں اب سوچنا یہ ہے کہ ملک میں تبدیلی آئے کیسے۔
انقلاب کا نعرہ لگانے ولوں کی لائن میں بھی تو یہی چہرے پارٹی بدل کر پہنچتے ہیں اور پھر نئے سرے سے یہی کہانی دہرائی جا تی ہے اس وقت میری ذاتی رائے کے مطابق چالیس فیصد سے زاہد لوگ ووٹ کاسٹ نہ کرنے کے حق میں ہیں ان کا خیال بھی یہی ہے کہ ووٹ دینے کا کوئی فائدہ نہیں یہ نہ سہی اس جیسا ایک اور سامنے آجائے گا اگر چار پیار وں نے اپنا کام یونیہی جاری رکھا تو کچھ عرصہ بعد عوام ووٹ کو گالی سمجھیں گے تو پھر ملک کیسے چلے گا ملک میں تبدیلی کیسے آئے گی ،،،،، کیا قوم کسی خونی انقلاب کی طرف تو نہیں جا رہی اگر ایسا ہو گیا تو یہ سوال چونکا دینے والے ہیں مگر شاہد ہمارے لیڈران اور ان کے روایتی چار پیارے یہ خطرہ بھانپ نیں رہے مگر یہ لوگ تو مفاد پرست ہیں انہیں کسی سے کیا اگلے الیکشن میں وہ کسی نئے لیڈر کے چرنوں میں جا بیٹھیں گے ہمیں اب لیڈوروں کے ساتھ ساتھ ان چار پیاروں کا بھی خیال رکھنا پڑے گا جو الیکشن کے دنوں ہمارے ووٹوں کی قیمت لے کر اگر وہ لیڈر ہار بھی جائے تو وہ جیتنے والے لیڈر کیے دم چھلے بن جاتے ہیں اور پرانے قصے پھر سے شروع کر دیتے ہیں یہ لوگ اس لیڈر کے دوست نہیں بلکہ دوست نما دشمن ہوتے ہیں جو انہیں ان کے خیر خواہوں سے دور کر دیتے ہیں
ختم ہو جاہیں گی جب کیمرے کی سازشیں کیمرے ہٹ گئے تو بونے سے نظر آئو گے
اب عوام باشعور ہو چکے ہیں نہیں اب شائد بیوقوف بنانا مشکل ہو اب یا تو چار پیاروں کی سیاست ختم ہو جائے گی یا اب ان لیڈروں کا خدا ہی حافظ ہو اللہ ان کو عقل دے تاکہ وہ اپنے اچھے برے کو پہچان سکیں۔