اس کو پیپلز پارٹی کا خوش قسمتی کہیں یا چال بازی ؟؟بہر حال خوش قسمتی اس پارٹی پر زیادہ مہربان نظر آتی ہے چونکہ ہر بار یہ مجرم ٹھہرنے کے با وجود بھی یا تو خوش قسمتی سے بچ جاتی ہے یا پھر اپنی شاطر چال بازیوں سے عوامی ہمدردی حاصل کر لیتی ہے اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس پارٹی کی قیادت نے بے پنا ہ قربانیاں دیںجس کی بدولت ہی آج یہ صاحب اقتدار ہے ۔ایک بات جو سب سے اہم ہے اور عوام الناس کو اچھی طرح سے معلوم ہونی چاہیے کہ آج کل جو عام معافی اوراستشنٰی کی باتیں زبان زد عام ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ اگر ہمارے صاحب اقتدار حضرات مجرم ہیں تو انھیں کسی طرح بھی معافی نامے کی ضرورت نہ ہوتی اگرچہ معافی کی طلبی کی اتنی شدت کے ساتھ ضرورت ہے کہ مجرموں کا جرم ہی اتنا سنگین دکھائی دے رہاہے ۔دوسری اہم بات یہ کہ ہم خود اس میں کسی حد تک قصور وار ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر ہم نے خود اپنے ہی ووٹ کے ذریعے سے ایسے مجرموں کو ایوان اقتدار تک پہنچایا ہے کہ وہاںہم انتہائی درجے کے بے وقوف تصور ہونے لگے ہیں جبکہ یہ مجرم تو جیل جانے کے مستحق تھے اور ہم نے انھیں ایوان میں لاکھڑا کیا۔
بات پھر وہی ہے کہ اسے خوش قسمتی کہیں یا پھر چال بازی ؟؟ اسی چال بازی کو آزماتے ہوئے ہم عوام کے دل موم ہو جاتے ہیں اور چال باز اپنی چال بازی میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔این آر او کی آڑ میں کئی افراد کو غیر آئینی اور غیر قانونی پناہ گا ہ مل گئی تھی جس کے پیش نظر کئی جرائم پیشہ افراد ہم جیسے معصوم عوام کی آنکھ کا تارہ بن گئے ۔سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ این آر او کے زیر سایہ جن کیس کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ان کو کھولا جائے اور عوام کا لوٹا ہو ئے پیشہ واپس لایا جائے جس پر حکومت معمولی طرزکے حیلے بہانوں سے اپنے ڈگر پر کام کرتی گئی اور اب معاملہ اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ حکومت اور سپریم کورٹ اپنے اپنے فیصلوں کو منوانے کے درپے ہیں ۔دوسر ی صورت میں یہ معاملہ معاذآرائی کی طرف تیزی بڑھ رہا ہے ۔جبکہ وزیر اعظم پر فرد جرم بھی عائد کی جا چکی ہے حیرت کی بات ہے کہ ہمارے ہاں ایسے ایسے عجوبے بھی رونما ہوتے ہیں جو عوامی پیسوں پر اپنا حق جتاتے ہیں اورپھر خود کو عوامی نمائندے بھی کہلواتے ہیں چونکہ عوام کا لوٹا گیا پیسہ واپس لانے میں ابتدائی کام وزیر اعظم کا تھا جس پر انھوں نے کوئی خاص آہمیت نہیں دی۔در حقیت یہ معلوم نہیں کہ یہ لوٹا گیا پیسہ اب بھی سوئس بنکوں میں باحفاظت محفوظ ہے یا پھر اسے غائب کر دیا گیا ہے بالفرض یہ سوئس بنکوں میں موجود نہیں تو وزیر اعظم کو ایک خط لکھنے میں کیا قباعت تھی تو کسی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ پیسہ سوئس بنکوں میں موجود ہے اسی لیے خط لکھنے کے لیے اتنے حیلے بہانے رچائے جا رہے ہیں بالفرض اگر خط لکھ دیا گیا تو یہ بات بھی عایاں ہو جائے گی کہ کتنی رقم کس کس لوٹیرے کے اکائونٹ میں موجود ہے اور یہ بات جو بہت کم لوگوں کے علم میں ہے تو وہ ہر ایک کی زبان پر آجائے گی اور دوسری طرف عوام کی حیرت بھی دیدنی ہو جائے گی جس پر ہم عوام کے منہ اَڈے کے اَڈے (کھلے کے کھلے )رہ جائیں گے ۔آئنی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سپریم کورٹ وزیر اعظم کوموردالزم ٹھہراتی بھی ہے تو صدر کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ اس سزا کو معاف کر سکتے ہیں اگر ایساہی ہے تو معافی تو یقینی ہے چونکہ کیس جس کے خلاف ہے ساری معاذآرائی اسی کو بچانے کے لیے کی جارہی ہے جبکہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے ٹرائل کی باتیں تو محض حقیقت سے توجہ ہٹانے کے لیے ہیں۔یوں کہیے جناب کہ جن کو عوامی نمائندے کہا جاتا ہے وہ عوامی مجرم ثابت ہونے کے بعد معافی اور استشنٰی جیسے غیر آئینی،غیر قانونی،غیرمہذبی و غیر اسلامی اقدام سے بے خوف خطر زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں تبھی تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم عوامی نمائندے کی حیثیت سے اپنے وزیروں،مشیروں،لیگل ومیڈیا ایڈوائزروں کی کرپشن سے لطف اندوز ہو تے پائے گئے ہیں اسے کہتے ہیں جمہوریت کا حسن ،جو صرف و صرف عوامی نمائندوں کی بھلائی،فلاح بہبود اور ذاتی مفادات میں رچی بسی نظر آرہی ہے۔محمد قمر اقبال